جاوید اختر چودھری کا افسانوی مجموعہ ”ٹھوکا‘‘ – محمد اکبر خان اکبر

جناب جاوید اختر چودھری ایک عرصے سے دیارِ غیر میں رہ کر اُردو ادب کی خدمت میں ہمہ تن مصروفِ عمل ہیں. اب تک وہ کئی گراں سنج ادبی کتابیں تصنیف کر چکے ہیں. یہاں ان کے ایک افسانوی مجموعہ ”ٹھوکا‘‘ کی بابت اظہارِ خیال مقصود ہے. اس مجموعے میں ان کے پندرہ افسانے شامل ہیں. اس کے ساتھ محترم مصنف نے اپنے فن افسانہ نگاری کے متعلق 23 مصنفین و دانشوروں کی آراء کو بھی شامل کیا ہے. اس طرح یہ افسانوی مجموعہ جاوید اختر چوہدری کے فن کے بارے ایک دستاویز کی شکل اختیار کر گیا ہے.
معروف امریکی شاعر ”ہنری واڈز ورتھ لانگ فیلو‘‘ نے کہا تھا کہ:
”کسی کہانی کا آغاز کرنا ایک عظیم کام ہے لیکن اس کہانی کو منطقی انجام تک پہچانا عظیم ترین کام ہے.‘‘
جاوید اختر چودھری کے ان افسانوں کو بہ نظر غائر دیکھا جائے تو یہ ایک عظیم ترین کام دکھائی دیتا ہے. پہلا افسانہ ”باشٹر‘‘ سمندر پار پاکستانیوں کے مسائل کا ایک دلچسپ نقشہ پیش کرتا ہے. یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ ہم اچھی بھلی ملازمت چھوڑ کر بیرونِ ملک جانے کے خواب دیکھتے ہیں جیسے وہاں دولت کا انبار لگا ہو، وہاں پہنچ کر جن معاملات سے پالا پڑتا ہے تو چودہ طبق روشن ہوجاتے ہیں. اس افسانے میں پاکستانی معاشرے کی سچی عکاسی کی گئی ہے. پاکستان میں کسی پر بھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا چاہے وہ آپ کا عزیز ہو یا کوئی دوست.
دوسرے شاہکار افسانے کا عنوان ہی مجموعہ ہذا کا عنوان ہے. ”ٹھوکا‘‘ الفاظ کی ایک عمدہ اور منفرد بنت کاری ہے. یہ کہانی ابتدا ہی سے قاری کو جکڑ لیتی ہے. معاشی اور سماجی ناہمواریوں اور معاشرے میں رائج غلط خیالات پر گہری طنز کی گئی ہے. یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ ہمارے ہاں لوگوں کی تعظیم کا معیار ان کا عہدہ اور پیشہ سمجھا جاتا ہے. اس افسانے کا انجام دلچسپ ہے جو قاری کے دل پر دیرپا تاثر قائم کرتا ہے.
افسانہ ”ایک عمر کی اُجرت‘‘ کی کہانی بھی بیرونِ ملک مقیم پاکستانی کے گرد گھومتی ہے. اس افسانے میں بھی پاکستانی معاشرے کی سچی عکاسی موجود ہے.
”وہ حشر بلا خیز‘‘ برطانیہ میں بس جانے والے ایک نوجوان کی بے راہروی کی داستان ہے جسے اللہ نے دنیا کی ہر نعمت دی مگر اس نے اللہ کی قائم کردہ حدود کو توڑا اور برے انجام سے دوچار ہوا.
”ویٹنگ کارڈ‘‘ ایک دل پھینک شاعر اور ایک وفادار بیوی کی مختصر مگر پر اثر کہانی ہے.
جاوید اختر چودھری کی کہانیاں معاشرے کے تلخ حقائق کو سامنے لے کر آتی ہیں. ان کی تحریر دلوں پر اثر کرنے والی اور سوچ کے زاویے وسیع کرنے والی ہے. ان کے اس مجموعے میں افسانہ ”نمبر 271‘‘، ”ہنر مند‘‘ اور ‘تصویرِ کائنات کا ایک رنگ‘‘ بھی انفرادیت اور دلچسپی سے معمور ہیں.
جی چاہتا ہے کہ وہ لکھتے رہیں اور ان کی تحریروں سے قاری حظ اٹھاتے رہیں. اُردو ادب کے اس خدمت گار کی تحریریں ضمیر جھنجھوڑ نے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہیں. ایک اعلٰی ادبی فن پارہ تحریر کرنے پر جاوید اختر چودھری صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں.

اپنا تبصرہ بھیجیں