سینٹ آگسٹائن (Saint Augustine) نے غالباً دنیا کی پہلی خودنوشت سوانح عمری ”اعترافات‘‘ (The Confessions) کے نام سے تحریر کی جو 397 سے 400 عیسوی کے دوران لکھی گئی. برصغیر میں ”تزکِ بابری‘‘ شاید پہلی خودنوشت سوانح عمری ہے. اُردو کی پہلی خودنوشت سوانح عمری کا اعزاز ”کالا پانی‘‘ کے پاس ہے جو مولانا جعفر تھانیسری نے تحریر کی اور 1884ء میں شایع ہوئی. اس اعتبار سے اُردو ادب میں خود نوشت سوانح عمری کی عمر ڈیڑھ سو سال سے بھی کم ہے. اُردو زبان میں اب تک کتنی سوانح عمریاں شایع ہو چکی ہیں، اس بابت کچھ بھی وثوق سے کہنا ممکن نہیں البتہ اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے. میری رائے میں خالصتاً اُردو میں تحریر کردہ خودنوشتوں کی تعداد اگر لاکھ نہیں تو اس کے قریب ہی ہوگی.
ایک معروف مصنف لکھتے ہیں کہ:
”خودنوشت میں مصنف اپنی ذات کو محور بنا کر اپنے عہد کے سماجی سیاسی اور معاشرتی حالات کو قلم بند کر تا ہے۔ اس میں مصنف خود ہی مجرم، گواہ اور جج ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود نوشت سے قاری دیانت داری کی بہت ہی زیادہ توقع کرتا ہے.‘‘
مولانا ابرار احمد اجراوی قاسمی خودنوشت سوانح کے متعلق لکھتے ہیں:
”دوسروں کی سوانح لکھنا یا دوسروں کے احوال و کوائف قلم بند کرنا بہت آسان کام ہے۔ اس کے برعکس اپنی خود نوشت مرتب کرنا اور اپنی کتابِ زندگی کو بے کم و کاست تحریر کے قالب میں ڈھالنا پُل صراط پر چلنے کے مترادف ہے۔ سوانح نگاری خارجی زندگی کی تصویر کشی ہے، تو خودنوشت نگاری باطن کے اسرار رو رموز کو کاغذ کے سینے پر کندہ کرنے کی جان کاہی۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ خود ستائی کی بے لگام خواہش سے مجبور ہوکر اپنی خوبیوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے اور اپنے عیوب پریا تو ملمع سازی کرتا ہے یا دانستہ اس سے چشم پوشی کرلیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ داستانِ خود بقلم خود سے عبارت، خود نوشت نگاری تمام ادبی اصناف میں مشکل بھی ہے اور آسان بھی.‘‘
جب میں نے پروفیسر محمد نواز کی خودنوشت ”سرگُزشتِ دل نواز‘‘ کا اس تناظر میں مطالعہ کیا تو نہ تو مجھے وہ اپنی خوبیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے دکھائی دہے اور نہ ہی اپنے عیوب پر ملمع سازی یا چشم پوشی کرتے معلوم ہوئے. انہوں نے سچ اور صرف سچ لکھا. میرے خیال میں یہی ان کی خودنوشت کا سب سے بڑا وصف ہے.
پروفیسر محمد نواز نے اپنی زندگی کے مشاہدات، تجربات، خیالات، محسوسات، نظریات اور اعترافات کو سیدھے سادے، رواں لہجے میں رقم کیا ہے.
خیال آفرینی، مبالغہ آرائی اور خود نمائی سے اپنا دامن حتی الوسع محفوظ رکھا ہے. ایک خودنوشت نویس کے لیے یہی کام سب سے مشکل ہوا کرتا ہے کیوں کہ اسے اپنی کامیابیوں کا حال بھی لکھنا ہوتا ہے اور نرگسیت سے بھی دور رہنا پڑتا ہے. اپنی محنت کا صلہ بھی تحریر کرنا ہوتا ہے اور خود ستائشی لہجے سے پرھیز بھی کرنا پڑتا ہے. پروفیسر محمد نواز صاحب اس کڑے مرحلے کو نہایت ظفریابی سے گزار چکے ہیں.
ان کی یہ کتاب اپنے مندرجات کے اعتبار سے تو اعلٰی تحریر ہے ہی، ساتھ ساتھ اپنی دل آویز طباعت اور منفرد سرورق، عمدہ کاغذ و کتاب کے باعث صوری حسن کی بھی حامل ہے. کتاب کے آخر میں کئی نادر تصاویر اور دستاویزات کی نقول بھی اس کی دل فریبی میں اضافہ کرتی ہیں.
ان کی یہ کتاب زندگی میں پیش آنے والے کئی دلچسپ، سبق آموز اور عبرت انگیز واقعات کا خوب صورت مرقع ہے اور ایک محنتی، محب وطن پاک فوج کے صوبیدار سے فارسی کے پروفیسر تک کیے جانے والے سفر زندگی کی دلچسپ روداد ہے.
نامور ادیب، پروفیسر تفاخر محمود گوندل کا بے مثال حجاز نامہ ”جلوہ ہائے جمال‘‘ – محمد اکبر خان اکبر
ممتاز شاعرہ اور افسانہ نگار، فوزیہ تاج کی کی ایک اعلٰی افسانوی تصنیف، ”جل پری‘‘ – محمد اکبر خان اکبر
نامور کالم نگار و افسر تعلقات عامہ محترمہ تابندہ سلیم کی کتاب، ”لفظ بولتے ہیں“ – محمد اکبر خان اکبر
اسد محمد خان، فن اور شخصیت – شہزینہ شفیع
سلام بن رزاق نے کردار نہیں رویے خلق کیے ہیں: سرفراز آرزو
ادبی فورم، ریاض کے زیرِ اہتمام حج سے واپسی پر حسان عارفی کی تہنیت میں ادبی نشست
معروف ادیب اختر شہاب کا افسانوی مجموعہ ”من تراش“ – محمد اکبر خان اکبر
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد مانگٹ کا بے مثل سفرنامہ، ”پھر چلا مسافر“ – محمد اکبر خان اکبر
شکریہ ”الفانوس“ – حسنین نازشؔ
یادوں کی بارش میں نہائے ہوئے لمحوں کی روداد