شاعری کے لیے سب سے اہم خصوصیت موزونی طبع سمجھی جاتی ہے. شاعر معاشرے کا حساس ترین فرد ہوتا ہے. خولہ کنول وقار کا پہلا مجموعہ کلام ’نوائے مَن‘‘ میرے پیشِ نظر ہے جس کی بابت وہ خود لکھتی ہیں کہ:
”یہ کتاب جذبات کی ترجمان ہے. اس میں آپ کو امید اور خوشی کے رنگ بھی ملیں گے اور خوف و دکھ کے سائے بھی. معاشرے کے رائج رویوں پر لب کشائی کی ہے تو خوف ناک حقیقتوں پر تلخ نوائی بھی.‘‘
شاعرہ کے مجموعہ کلام کو دیکھ کر اس بات کا قوی احساس جنم لیتا ہے کہ وہ ابھی ایک نو آموز شاعرہ ہیں. اس لیے ان کی شاعری یا ان کے پہلے مجموعہ کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے اس بات کو ذہن میں رکھنا لازمی ہے. اس حقیقت کے باوجود کہ خولہ کنول وقار ابھی میدانِ سخن کی آموز کار ہیں، ان کا کلام دل میں اترتا محسوس ہوتا ہے. عشق حقیقی کے زیر عنوان ان کے اشعار پڑھنے کے لائق ہیں:
اپنا عشق مجھ کو عطا کر دیا
مجھ گناہگار کو کیا سے کیا کر دیا
ان کے کلام میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جھلک بھی ہے اور اللہ رب العزت کی بڑائی کا بیان بھی. شاعرہ ایک فرمانبردار بیٹی ہیں جو اشعار میں اپنے والد محترم کی پدرانہ شفقت اور اُن کے کردار کی معترف نظر آتی ہیں. اسی طرح وہ اپنی والدہ محترمہ کو بھی فراموش نہیں کرتیں. ان کی خدمات کا اعتراف اور ان کی محبت و محنت کو بھی اشعار میں پیش کرتی ہیں:
سارے جہاں کا پیار لٹاتی ہے ماں
محبت سے لبریز وجود کہلاتی ہے ماں
خولہ کنول وقار کے کلام میں شوخی اور ظرافت بھی ملتی ہے. وہ طنزیہ اشعار کہنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں:
دھوبی تو اب کسی کام کا نہیں
دھلائی کو اک تھانیدار چاہیے
ملازمت تو ڈھونڈنے سے ملتی نہیں
اب گزارے کو بیوی مالدار چاہیے
ان کے پہلے مجموعہ کلام میں کالج کی یادوں پر بھی اشعار کی ایک کہکشاں سجی ہوئی ہے. اپنے وطن کی محبت میں ڈوب کر لکھے گئے اشعار بھی ہیں اور حج، کعبہ، ماہِ صیام کے بارے میں اشعار بھی.
خولہ کنول وقار کا اولین مجموعہ کلام موضوعات کی وسعت اور تنوع کے اعتبار سے بھی بہت منفرد مقام کا حامل ہے. امید ہے وہ دنیائے سخن پر جلد ہی روشن ستارے کی مانند جگمگا رہی ہوں گی.