نامور صحافی اور ادیب عابد میر کی کتاب ”وفا کے موتی‘‘ – زہرا تنویر

کتاب اہلِ قلم اور اہلِ دل کے منتخب محبت ناموں پر مشتمل کتاب ہے جس کا ترجمہ و ترتیب عابد میر صاحب نے کیا ہے۔ اس سے قبل عابد میر کی تین کتابیں جو افسانوں اور مختصر کہانیوں کی ہیں، پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ حال ہی میں میر صاحب کی چھ کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ جن میں سے ابھی ”وفا کے موتی‘‘ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔
مصنف کا کہنا ہے کہ اس کتاب کو لکھنے کے پیچھے مختلف کہانیاں ہیں جن میں اہم ترین سبب خط کا، خطوط کے ذریعے ہونے والی محبت کے معدوم ہونے کا المیہ ہے۔ ہم نے چوں کہ خط بھی دیکھے، خطوط میں لپیٹ کر بھیجی جانے والی محبتیں بھی دیکھیں اور پھر ان کا زوال بھی دیکھا۔ انہیں ای میل اور سوشل میڈیا پہ سمٹتے دیکھا۔ پر اس کی کوئی توجیح کوئی سمجھ نہ آئی کہ جو پیار اور جو دکھ خطوط میں لپیٹ کر بھیجنا ممکن تھا، وہ پیار واٹس ایپ کیوں نہیں ہوتا اور دکھ ای میل کیوں نہیں ہوتے؟
کتابن ”وفا کے موتی‘‘ کو تین رنگوں میں تقسیم کیا گیا ہے:
”پہلا رنگ‘‘ جس میں اُن اہلِ قلم کے خطوط ہیں، جنہوں نے بغاوت کی داستانیں لکھیں۔ جن میں امرتا پریتم، انتون چیخوف، آسکر وائلڈ، پریم چند، سارہ شگفتہ، شبلی نعمانی، لیوٹالسٹائی اور فیض احمد فیض کے علاوہ بہت سے نام شامل ہیں۔
”دوسرا رنگ‘‘ جو اہلِ سیاست کے خطوط پر مشتمل ہے، جنہوں نے بغاوتوں کو جنم دینے کے ساتھ ساتھ دشمن کو زیر کیا لیکن محبوب کے لیے اُن کے دل کیسے نرم ہوئے۔ ان میں ابراہم لنکن، مہاتما گاندھی، ہنری ہشتم، نپولین اور واجد علی شاہ کے خطوط شامل ہیں۔
”وفا کے موتی‘‘ کا تیسرا اور آخری رنگ اہل محبت کے خطوط پر مبنی ہے، جس میں اپنی بولین، جیولیٹ، صفیہ اختر، سلمٰی اور لیڈی ڈیانا کے خطوط موجود ہیں۔
”وفا کے موتی‘‘ میں وفا کا کون سا موتی چُنا جائے اور اس کا حالِ دل سنایا جائے، مشکل ہے۔ سب محبت نامے ایک سے بڑھ کے ایک ہیں۔ کتاب خریدیں اور اِس بار سرما کی اداسی میں یہ خط پڑھ کر وفا کے موتیوں کا حالِ دل پڑھیں۔
اس خوب صورت کتاب کو فکشن ہاؤس، لاہور نے شائع کیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں