غلام حسین محبؔ کی ’’محشرستان‘‘ – محمد اکبر خان اکبر

شاعری زیستِ انسانی کے سچے جذبات و احساسات کی ترجمانی ہے. شاعر جو کچھ دیکھتا، سنتا اور محسوس کرتا ہے، اپنی خداداد صلاحیت سے اسے دل میں اتر جانےوالے اشعار میں ڈھال کر پیش کردیتا ہے. اس مقصد کے حصول کے لیے مشاہدے کی گہرائی، قوت مخترع اور رموز سخن سے آگاہی لازمی ہے.
غلام حسین محبؔ کا تعلق پاکستان کے خوبصورت ترین صوبے خیبر پختون خواہ سے ہے. جس طرح وہاں کی سرزمین قدرتی خوب صورتی سے مالامال ہے، اسی طرح وہاں کی دھرتی علم پرور تخلیق کاروں سے بھی مزین ہے. غلام حسین محبؔ کا مجموعہ کلام لاجواب غزلیات کا دلکش مرقع ہے جس میں نظمیں اور قطعات کے رنگ بھی دکھائی دیتے ہیں.ان کی شاعری رنج و الم کی ترجمانی بھی کرتی ہے اور ناموافق حالات سے ٹکرانے کا حوصلہ بھی دیتی ہے.

رنج و الم کی خاک سے حاصل ہے زندگی
مانا یہی کہ موت سے مشکل ہے زندگی
بڑھ کر رہی انسان سے عظمت جو مال کی
دریائے کشت و خون کا ساحل ہے زندگی

ان کی شاعری میں درد کی جو منظر کشی ملتی ہے وہ اپنی اثر پذیری میں منفرد ہے:

ملے کتنے غم ان نظاروں کے پیچھے
ہیں کانٹے چھپے ان نظاروں کے پیچھے
جو اختر شماری تری یاد میں کی
بڑے رت جگے ہیں ستاروں کے پیچھے

شاعر کے خیال میں شاعری کیا ہے؟ ان کے اشعار سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے:

محبؔ شاعری وقت گذاری نہیں ہے
ہیں اہل نظر استعاروں کے پیچھے

ان کے کئی اشعار میں داخلی کیفیات کی اعلٰی ترجمانی کا رنگ نمایاں ہے کہ وہ رجائیت کے جذبے سے سرشار دکھائی دیتے ہیں:

پھر شام ہوئی دل یادوں سے بہلائیں گے
جو درد ملے ہیں یادوں سے سہلائیں گے
یوں ناز نہ کر یہ تاروں سے کوئی کہہ دے
ہم. اشکوں سے بھی پھولوں کو چمکائیں گے

امید و بیم کی کیفیت کا ایک اور رنگ ملاحظہ کیجیے:

نسیم لائی ہے پیغام سحر، ساتھ چلو
اپنی منزل کو کر آغاز سفر ساتھ چلو

ان کی سخن سرائی کا ایک اور حوالہ قطعات نگاری ہے. انہوں نے چند اعلٰی قطعات ”محشرستان‘‘ میں شامل کر کے مجموعہ کلام کی شان بڑھا رکھی ہے. غلام حسین محب اپنی نظموں میں قدرتی نظاروں کی بے نظیر منظر کشی کرتے ہوئے بھی دکھائی دیتے ہیں:

زندگی ہے خوب صورت دامن کوہسار میں
دیکھ منظر ہائے
قدرت دامن کہسار میں

مجموعی طور پر غلام حسین محبؔ کا مجموعہ کلام اُردو ادب میں ایک اچھا اضافہ ہے.