مسرت زہرا کنول کا شمار وطن عزیز کی کہنہ مشق شاعرات میں ہوتا ہے. آپ عرصہ دراز سے علمی و ادبی سرگرمیوں میں پوری تندہی سے مصروف ہیں. مسرت زہرا کنول اپنی ذات میں ایک انجمن اور ایک ادارے کی مانند ہیں. شاعرہ اور ادیبہ بھی ہیں، عالمی ادبی تنظیم ”جگنو انٹرنیشنل‘‘ کی روح رواں بھی، کئی کتابوں کی مصنفہ بھی ہیں اور کتابوں کی دلدادہ بھی.
حال ہی میں مسرت زہرا کنول کا مجموعہ کلام ”درد کی دہلیز پر‘‘ منظر عام پر آیا ہے جو اُردو ادب میں کرونا کی عالمی وبا کے حوالے سے نظموں اور غزلیات پر مشتمل ہے. اس مجموعے کو ایک امتیاز یہ بھی حاصل ہے کہ یہ دنیا کا پہلا اُردو مجموعہ کلام ہے جس میں تمام کا تمام کلام کوویڈ 19 کے حوالے سے ہے.
مسرت زہرا کنول صاحبہ کی بہت سی کتابیں شائع ہو چکی ہیں. ان کی شاعری میں ہمارے عمومی معاشرتی رویوں کی واضح عکاسی ملتی ہے. یہ کتاب ”درد کی دہلیز پر‘‘ کا ”انتساب‘‘ ہی لرزا دینے والے اشعار پر مشتمل ہے. اس عالمی وبا نے زیستِ انسانی کو جس طرح متاثر کیا ہے، اس کی لاجواب عکاسی ان اشعار سے نمایاں ہوتی ہے.
چار سو بین کرتی بہاروں کے نام
موسمِ گل میں بچھڑتے شگوفوں کے نام
خوں اگلتے سب نگینوں کے نام
آرزو کے جہاں کے دفینوں کے نام
باد صر صر کی ساری مرادوں کے نام
ظلمتوں کے دیے سب اجالوں کے نام
وقت کی قید کے قید لمحوں کے نام
جان سے جو گئے ان رفیقوں کے نام
انتساب کے بعد انہوں نے اس عالمی وبا پر ایک تحقیقی اور تفصیلی مضمون بطور ابتدائیہ درج کیا ہے جو تقریباً بیس صفحات پر مشتمل ایک قابل قدر علمی کاوش ہے. اس مقالے میں محترمہ نے عالمی وباؤں کی تاریخ نہایت اختصار سے تحریر کی ہے اس کے ساتھ ساتھ اس وبا کے اثرات اور اس وبائی مرض کی بابت ماہرین کے خیالات تحریر کیے ہیں جو قاری کی معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے اسے ذہنی طور پر آئندہ صفحات پر پیش کی جانے والی شاعری کے لیے تیار کرتے ہیں، البتہ اس مقالے میں ایک کمی محسوس ہوتی ہے وہ یہ کہ اس تحقیقی مضمون میں صرف و صرف ایران کے حوالے سے ان کے پروفیسرز، سفارت کار اور دیگر افراد کے خیالات پیش کیے گئے ہیں. جذبہ حب الوطنی کا تقاضا تو یہ ہونا چاہیے کہ سب سے زیادہ نکات پاکستان کے ماہرین کے لکھے جاتے یا پھر اس ملک کے ماہرین کے جہاں اس پر سب سے زیادہ تحقیق کی جارہی ہے. بہر حال یہ مضمون پڑھنے کے لائق ہے.
ہندوستان کے معروف شاعر احمد علی برقی اعظمی نے خوبصورت اشعار پر مبنی اپنے تاثرات کا اظہار کر کے شاعرہ کی ادبی خدمات کو سراہا ہے. جیسا کہ پہلے لکھا گیا ہے کہ اس کتاب میں نظمیں اور غزلیں کرونا کی عالمی وبا کے پس منظر میں ہی لکھی گئی ہیں. شاعرہ نے اپنی شاعری میں لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ یہ عالم فنا اس وبا کی ہولناکیوں سے بچ سکے.
کرکے تم بھی اب اس کی اطاعت
اپنے ایمان سے لے کے طاقت
حق کے رستے پہ سیدھا چلو نا
اپنے رب پہ بھروسہ کرو نا
مسرت زہرا کنول کی شاعری ایسے غیر معمولی حالات کا مقابلہ کرنا سکھاتی ہے اور ان حالات میں اپنا وقت درست طور پر گزارنے کا درس دیتی ہے.
سب ادھورے کام کرلو اپنے گھر میں بیٹھ کر
یہ خبر سب کو سنانے لاک ڈاؤن آ گیا
صبر کا پیمانہ بھر کے حسرتوں کے باب میں
دل کی دنیا کو ہرانے لاک ڈاؤن آگیا
شاعرہ اپنے قارئین کو مایوسی اور خوف سے بچا کر احتیاط کا مشورہ دیتی ہیں کیوں کہ یہی ایک راستہ ہے جو ہمیں اس وائرس کے مقابلے میں قوت فراہم کرتا ہے. اپنی نظم ”احتیاط‘‘ میں کیا خوب کہا ہے کہ:
وقت کا ہے بس تقاضا احتیاط
خود پہ لازم کرنا یارا احتیاط
طب کی ہے تاریخ میں لکھا ہوا
ہر دوا سے اچھا کرنا احتیاط
ان کا یہ مجموعہ کلام اُردو ادب میں ایک منفرد اضافہ ہے جس کے اشعار قاری کو مایوسی اور کم ہمتی سے نکال کر عالی حوصلہ اور پر امید کرتے ہیں.
بہت کم وقت میں اس قدر بہترین ادبی فن پارہ تخلیق کرنے پر مسرت زہرا کنول مبارک باد کی مستحق ہیں. انہوں نے اس وبا کے موسم میں اس کے انسداد کی کاوشوں میں حصہ ڈالا ہے اور تمام شاعروں کا حق ادا کر دیا ہے.