عابد محمود عابدؔ کی کتاب “اُداس ہنس لیں” – محمد اکبر خان اکبر

مزاحیہ ادب کی تخلیق کافی مشکل کام ہے. اُردو ادب میں بے شمار نام دکھائی دیتے ہیں مگر مزاح نگاروں کی تعداد ان میں بہت کم ہے. عصرِ حاضر کے مزاح گو شعراء میں سلمان گیلانی، انور مسعود، خالد مسعود، ادریس قریشی، معین اختر نقوی، کے علاوہ اور بھی کئی نام ہیں جو ادبی افق پر خوب جگمگا رہے ہیں انہی ستاروں میں ایک اور ستارہ عابد محمود عابدؔ کے نام سے طلوع ہوا ہے. آپ کی ظریفانہ شاعری اُردو کے مزاحیہ ادب میں اعلٰی اضافہ ہے.
جناب عابد محمود عابدؔ کی طنزو مزاح پر مبنی شاعری کا پہلا مجموعہ ”اُداس ہنس لیں‘‘ قابلِ توجہ ہے. ان کی مزاحیہ شاعری میں بے تکلفی، بذلہ سنجی اور حاضر جوابی کا کوئی جواب نہیں. موجودہ دور میں بے پناہ مشکلات میں گھرے عوام کے لیے ان کی پر مزاح شاعری زندگی میں ایک نیا رنگ بھرتی ہے اور امیدوں کے چراغ روشن کرتی ہے.
عابد محمود عابدؔ کی مزاحیہ شاعری محض تفریح کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ معاشرتی برائیوں پر ان کی نرم و لطیف چوٹیں اصلاحِ معاشرہ کا فرض ادا کرتی ہیں. ان کی شاعری سے محظوظ ہونے کے ساتھ ساتھ سبق اندوز بھی ہوا جا سکتا ہے. آپ چند ہی مصرعوں میں اداسیوں کو مسکراہٹ میں بدلنے کے فن سے آشنا ہیں اور رعایت لفظی سے ایک ایسی دنیا تخلیق کرتے ہیں جہاں کے مکین ہنستے، مسکراتے بہت کچھ سمجھتے چلے جاتے ہیں.
عابد محمود عابد کے کچھ اشعار ملاحظہ کیجیے:

فیکٹری
مجھے دولت ملے جہاں بھر کی
حسرتوں کا مری شمار نہیں
تیرے ابا کی فیکٹری ہے عزیز
ورنہ تجھ سے تو مجھ کو پیار نہیں

انہیں معروف ادیب ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے بجا طور پر مزاح کا سفیر قرار دیا ہے. اسی طرح ڈاکٹر طاہر شہیر نے بھی انہیں قد آور مزاح نگار کہنے میں حق بجانب ہیں جس کے ثبوت ان کے مجموعہ کلام میں جابجا دکھائی دیتے ہیں. عالمی وبا کورونا پر ان کی مرقع کاری کا ایک نمونہ دیکھیے:

جرم
اب کہاں ہیں وہ سبھی علم نہیں ہے کسی کو
بانٹتے پھرتے تھے ہم میں جو شفا یاد نہیں
ساری دنیا کو کرونا نے کیا ہے تسخیر
جانے کس جَرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

عابد محمود عابدؔ نے مختلف ادبی اصناف کو مزاحیہ شاعری میں خوب برتا ہے. ان کا یہ مجموعہ کلام قطعات، غزلیات، فردیات اور تضمین نگاری کا اعلٰی گلدستہ ہے. ان کا یہ مجموعہ کلام معنوی لحاظ کے ساتھ ساتھ صوری اعتبار سے بھی خوب صورتی کی عمدہ مثال ہے.

عابد محمود عابدؔ کی کتاب “اُداس ہنس لیں” – محمد اکبر خان اکبر” ایک تبصرہ

تبصرے بند ہیں