محمد شیراز غفور عمدہ شعری ذوق کے حامل ہیں اور خود بھی اعلٰی شعر کہنے پر قادر ہیں. ان کی ادبی کاوشوں سے ڈیرہ غازی خان میں مشاعرے کی روایت پروان چڑھی. شاعری کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ:
”شاعری کو میں کم و بیش ایمان کا درجہ دیتا ہوں اور اس میں بے ایمانی اور بے ادبی گناہ تصور کرتا ہوں.‘‘
اس اعتبار سے ان کی شاعری سچائی و خلوص کے مزین ہے. ان کا شعری مجموعہ ”اورمیں‘‘ فی الحقیقت مجموعہ غزل ہے جس کی ابتداء نعت رسول مقبول ﷺ سے ہوتی ہے. محمد شیراز غفور کی نعتیہ شاعری پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ سچے عاشق رسول ﷺ ہیں. ان کی نعت کے الفاظ تقدیس و عقیدت میں ڈوبے ہوئے ہیں:
نبیﷺ کے ذکر سے مہکا ہوا مرا آنگن
درود پاک کے دم سے ہرا بھرا سمجھو
وہ عالمِ سخن کے وہ روشن ستارے ہیں جن کے اشعار میں زیست انسانی کے کئی رنگ جلوہ نما ہوتے ہیں:
مجھے لگا تھا وہ باتوں میں آرہا ہے مری
پر اس نے بازی پلٹ دی بڑے کمال کے ساتھ
غم و یاس کے موضوعات شاعری کا ایک لازمی جزو ہوا کرتے ہیں البتہ ان کو برتنے کے انداز جدا جدا ہوتے ہیں. محمد شیراز غفور کا کلام اداسی کی منفرد عکاسی کرتا دکھائی دیتا ہے:
لپٹ رہے ہیں اداسیاں میں ایک دوجے سے
کسی کے تکیے میں بھیگی ہوئی کپاس اور میں
شیراز غفور کی غزل میں ان کی دل آویز شخصیت کی عکاس بھی ہے اور جذبات کی گہری آواز بھی. وہ الفاظ کے الٹ پھیر سے خوب آگاہ ہیں اور ان کو برتنے کا فن بھی خوب جانتے ہیں:
یونہی چھپتا نہیں رسوائی سے
خوف آتا ہے پذیرائی سے
یہ خلا پر ہی نہیں ہوتا
بات کرنی پڑی تنہائی سے
شاعر کا اسلوب سخندانی ان کی شعری پختگی کا گواہ ہے. وہ معنویت اور ترسیل کے ذرائع سے کماحقہ فائدہ حاصل کرنے پر ملکہ رکھتے ہیں. شیراز غفور کے اشعار میں موضوعات کا تنوع بھی ہے اور احساسات و جذبات کی فراوانی بھی. وہ تراکیب، تشبیہات و استعارات کو برتنے سے آگاہ ہیں. ان کے غزلیات میں تخیل کی بلند پرواز، اور رجحان ساز علامتیں جگمگاتی ہیں. امیدوں کے جگنو روشنی بکھیرتے ہیں اور حسرتوں کی پرچھائیاں آنکھوں کو چندھیانے نہیں دیتیں. شیراز غفور کے کلام میں سنجیدگی، متانت اور بلند خیالی کا عنصر واضح ہے. ان کا کلام شگفتگی، شعور اور فکر وفن کی جزئیات سے سجا ہوا ہے. وہ شادابی، شادمانی اور انفراح سے یاری رکھتے ہیں اس لیے ناامیدی کا روگ پالتے معلوم نہیں ہوتے. ان کی دعوت شیراز ساز و سخن کے دلدادہ لوگوں کی تشنگی کا وسیلہ ہے.