جاوید خوشحال خان ایک منفرد تخلیق کار ہیں. ان کی کتاب ”خواب سے حقیقت تک کا سفر، بذریعہ کاشر دیس‘‘ ایک تخیلاتی سفرنامہ ہے. وہ کشمیر اور اہلِ کشمیر کے مصائب سے اچھی طرح واقف ہیں. انہوں نے کشمیر کی خوب صورت وادی کی جس انداز میں منظر نگاری کی ہے اسے پڑھ کر ہر قاری وہاں جانے کی خواہش اپنے اندر موجود پاتا ہے.
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان کو کشمیری نہیں بلکہ کشمیر کی ضرورت ہے. اپنے غاصبانہ قبضے کو دوام بخشنے کی خاطر سری نگر تک ریلوے کا اعلٰی نظام تعمیر کر چکا ہے تاکہ وہاں کے وسائل کو لوٹنے میں آسانی ہو. مقبوضہ کشمیر میں ہندوستان نے بہت سے پن بجلی منصوبے بھی لگا رکھے ہیں اور کئی ایک پر کام کر رہا ہے. یہ تمام پن بجلی منصوبوں سے حاصل ہونے والی بجلی کشمیری مسلمانوں کو مہنگی دی جاتی ہے اور وہ بھی کچھ گھنٹے کے لیے، جب کہ یہی بجلی شمالی ہندوستان میں کافی کم قیمت پر دی جاتی ہے. مقبوضہ وادی کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد ایک ہی دن میں دس دس ہزار ڈومیسائل دیے گئے ہیں تاکہ کشمیری مسلمانوں کی اکثریتی آبادی کو بتدریج کم کر دیا جائے.
یہ تو ایک غاصب، دشمن اور ظالم حکومت کے کرتوت ہیں. ان سے اچھائی کی توقع ہی نہیں کی جاسکتی. مگر اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھا جائے تو اور بھی کئی تلخ حقائق سامنے آتے ہیں. آزاد کشمیر میں ہم اب تک ریلوے ٹریک کیوں نہیں بچھا سکے؟ اس کا جواب ارباب اختیار کو لازمی دینا چاہیے.
مجھے یاد ہے کہ ایک بار نواز شریف حکومت میں اسلام آباد سے مظفر آباد تک ریلوے ٹریک بچھانے کی خاطر سروے کیا گیا تھا اور غالباً کچھ مزید کام بھی اس معاملے میں ہوا تھا، پھر نہ جانے کیوں یہ منصوبہ کاغذات میں دفن ہو کر رہ گیا.
پورے آزاد کشمیر میں ریلوے ٹریک کا قیام ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے. اس سلسلے میں آزاد کشمیر حکومت کو محکمہ ریلوے قائم کرکے وفاقی حکومت سے فوری تعاون طلب کرنا ہوگا. میری یہ خواہش ہے کہ جاوید خوشحال خان کا یہ خواب ہماری زندگی میں ہی تعبیر کا روپ دھار لے اور اسی ٹریک پر وہ حقیقت میں سفر کر کے ایک اور شاہکار سفرنامہ تحریر کریں.
جاوید خوشحال خان کا انداز بیان جالب اور دل کو چھو لینے والا ہے. ایسا محسوس ہی نہیں ہوتا کہ یہ کوئی تصوراتی تحریر ہے. ابتدا ہی سے اس پر ایک حقیقی سفر کا گمان ہوتا ہے. جاوید خوشحال خان نے جزئیات نگاری میں کمال کر دکھایا ہے. ریلوے اسٹیشن کی ایسے منظر کشی کی ہے کہ دل عش عش کر اٹھتا ہے. اسی منظر نگاری نے اس سفرنامے میں حقیقی رنگ بھر دیا ہے.
یہ سفرنامہ کئی ایک مقامات پر ایک جذباتی تحریر کا ایسا منظر دکھاتا ہے کہ پڑھنے والا اگر اہلِ دل ہو تو اس کی آنکھیں بھیگنے لگتی ہیں. خصوصاً جب وہ یاسین ملک اور میرواعظ عمر فاروق کی تصویر کا تذکرہ کرتے ہیں تو بے ساختہ دل بھر آتا ہے. مصنف کا اسلوبِ تحریر سفرنامہ کی اکثر خوبیاں سمیٹے ہوئے ہے. جنڈالوی کے ساتھ مکالمہ اس خوب صورت انداز میں لکھا ہے جس کا جواب نہیں. راستے میں آنے والے اہم مقامات اور ہم سفروں کے دل آویز تذکرے نے اس سفرنامے کو چار چاند لگا دیے ہیں.
جاوید خوشحال خان کا قلم رواں ہے اور وہ تحریر کے سبھی محاسن سے خوب آگاہ ہیں. دعا ہے کہ وہ اعلٰی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے رہیں.
محکمہ ریلوے کے اعلٰی عہدیداروں کو بھی یہ سفرنامہ لازمی پڑھنا چاہیے.
اسد محمد خان، فن اور شخصیت – شہزینہ شفیع
سلام بن رزاق نے کردار نہیں رویے خلق کیے ہیں: سرفراز آرزو
ادبی فورم، ریاض کے زیرِ اہتمام حج سے واپسی پر حسان عارفی کی تہنیت میں ادبی نشست
معروف ادیب اختر شہاب کا افسانوی مجموعہ ”من تراش“ – محمد اکبر خان اکبر
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد مانگٹ کا بے مثل سفرنامہ، ”پھر چلا مسافر“ – محمد اکبر خان اکبر
شکریہ ”الفانوس“ – حسنین نازشؔ
یادوں کی بارش میں نہائے ہوئے لمحوں کی روداد
”خود کی تلاش“، اختر سردار چوہدری کی کہانی کاری – محمد اکبر خان اکبر
”صاحبِ اقلیمِ ادب“، بے بدل صحافی، مدیر اور ناول نگار کو خراجِ تحسین – محمد اکبر خان اکبر
معروف ادیب، مضمون نگار اور سفرنامہ نویس طارق محمود مرزا کا ”مُلکوں مُلکوں دیکھا چاند“ – محمد عمران اسحاق
بہت شکریہ۔۔آپ کا ایک ایک لفظ میرے لیے بہت قیمتی ہے