’’حاضر اللہ سائیں‘‘ کہنے کو تو ارشد ملک کا سفرنامہ حرم ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ اسے محض سفر نامہ کہہ دینا بھی کافی نہیں۔ کیوں کہ اس میں روایتی سفر نامے کے بر عکس اور بہت کچھ ہے جس نے اسے ایک ممّیز و منفرد تخلیق بنا دیا ہے۔ یہ محض سفر کا احوال نہیں بلکہ جذبات و محسوسات کی بیاض ہے۔ اگر کسی کو یہ جاننا ہو کہ اہلِ ایمان کا دل سفرِطیبہ و حرم میں کیسے دھڑکتا ہے تو اسے ’’حاضر اللہ سائیں‘‘ پڑھنا چاہیے.
اس سفر نامے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ مصنف پورے سفر میں معصوم بچوں کی طرح اپنے رب کے ساتھ منسلک دکھائی دیتا ہے۔ خالق اور مخلوق کے اس محبوبانہ تعلق کے بارے میں ہمیں مذہبی پیشواوں نے کبھی نہیں بتایا تھا اور ان کے بیانات اور تعلیمات کی بنا پر حج ہمیں محض مشقت طلب جسمانی عبادات کا ایک مجموعہ لگتا رہا لیکن ارشد ملک کا سفر نامہ پڑھ کر یہ سمجھ میں آتا ہے کہ حج تو محبت کا سفر ہے اور حرم تو عشق کی دائمی منزل ہے.
اس سفر میں مصنف کا تعلق خاطر ہر اس شے سے دکھائی دیتا ہے جو رب، نبی پاک ﷺ یا ان کے پیاروں سے متعلق ہو۔ حتٰی کہ وہ ان درودیوار، مکانات اور کوہ و دمن سے مکالمے تک کرتا پایا جاتا ہے۔ جبلِ رحمت سے مکالمہ ملاحظہ کیجیے:
”جبلِ رحمت میری باتیں سنتا رہا۔ میری باتیں سن کر اس کی آنکھیں بھی بھر آئیں۔
مجھے آواز آئی:
اے حج کے مسافر! میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ معلمِ اعظمﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.‘‘
”حاضر اللہ سائیں‘‘ عام سفر ناموں کی طرح ایک ڈائری یا روزنامچہ نہیں کہ جس میں ساری توجہ جامد چیزوں پر ہوتی ہے۔ یہ سفرنامہ مکمل طور پر ایک تخلیقی تحریر ہے جس میں ارشد ملک نے جا بجا زبان و بیان کے کرشمے بھی دکھائے ہیں چنانچہ طوافِ کعبہ کے بارے میں لکھتے ہیں:
”میرے نزدیک کعبہ کے گرد چکر مکمل کرنے کا مقصد صرف ایک ہی ہے:
اپنی ذات کے دائرے سے نکل کر اپنا وجود خالقِ حقیقی کے حوالے کرنا.‘‘
طواف کا یہ پہلو دریافت کرنا ایک اچھے تخلیق کار کا ہی منصب ہو سکتا تھا۔ اس سفرنامے میں ایسے تخلیقی جملے اکثر وبیشتر پڑھنے کو مل جاتے ہیں۔
ارشد ملک کے نزدیک حج مسلمان کو ایک شدت پسند مسلمان نہیں بنا دیتا بلکہ اسے ایک اچھا مسلمان بننے میں مدد دیتا ہے۔ وہ مسلمان جو خالقِ کائنات اور اس کے محبوب کی طرح پوری انسانیت کے لیے مہربان ہو اور تعصب سے بالاتر ہو کر اپنوں پرائیوں کو ایک ہی نظر سے دیکھتا ہو، چنانچہ جبلِ رحمت سے مکالمے میں مصنف نے اسی نکتے پر ارتکاز کیا ہے. جبلِ رحمت کی زبان میں یہ جملے دیکھیے:
”یاد رکھنا! اسلام صرف مسلمانوں کو مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ دینے کا درس نہیں دیتا بلکہ معلمِ اعظمﷺ نے تمام انسانوں کے حقوق کے احترام کا درس دیا ہے۔ دوسروں کے مذہب کو تنقید کا نشانہ بنانے کے بجائے اپنا قبلہ درست کرو۔‘‘
ایک اور جگہ ندائے غیب کی وساطت سے لکھا ہے کہ:
”کوئی میرے سینے کو اندر سے کرید رہا تھا اور مجھے بتا رہا تھا کہ ہم نے عمل کرنا چھوڑ دیا ہے۔ ہم جذباتی ضرور ہیں، پیروکار نہیں۔ ہم باتیں ضرور کرتے ہیں، چھوٹی چھوٹی باتوں پر جذبہ ایمانی دکھانے کے لیے بندوق اٹھا سکتے ہیں مگر نفرت بھرا ایک جملہ برداشت نہیں کر سکتے۔‘‘
آپ اس بات سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ”حاضر اللہ سائیں‘‘ کوئی معمول کی مہم جوئی نہیں ہے بلکہ ایک نہایت ذمہ دارانہ اور مفید فن پارہ ہے جس کی اہمیت محض ادبی نہیں بلکہ اس میں مسلمانوں کو درپیش چیلنجز اور مسائل پر بھی بات کی گئی ہے اور ان کے حل بھی تجویز کیے گئے ہیں۔
اسد محمد خان، فن اور شخصیت – شہزینہ شفیع
سلام بن رزاق نے کردار نہیں رویے خلق کیے ہیں: سرفراز آرزو
ادبی فورم، ریاض کے زیرِ اہتمام حج سے واپسی پر حسان عارفی کی تہنیت میں ادبی نشست
معروف ادیب اختر شہاب کا افسانوی مجموعہ ”من تراش“ – محمد اکبر خان اکبر
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد مانگٹ کا بے مثل سفرنامہ، ”پھر چلا مسافر“ – محمد اکبر خان اکبر
شکریہ ”الفانوس“ – حسنین نازشؔ
یادوں کی بارش میں نہائے ہوئے لمحوں کی روداد
”خود کی تلاش“، اختر سردار چوہدری کی کہانی کاری – محمد اکبر خان اکبر
”صاحبِ اقلیمِ ادب“، بے بدل صحافی، مدیر اور ناول نگار کو خراجِ تحسین – محمد اکبر خان اکبر
معروف ادیب، مضمون نگار اور سفرنامہ نویس طارق محمود مرزا کا ”مُلکوں مُلکوں دیکھا چاند“ – محمد عمران اسحاق
بلاشبہ محترم ارشد ملک نے جذبہ ایمانی کے ساتھ بہت عمدہ انداز میں سفر بیت اللہ شریف قلمبند کیا ہے،اور محترم رحمان حفیظ نے سادہ پیرائے میں انکی خوبصورت تصنیف کا مکمل نچوڑ پیش کیا ہے ، دلی داااااااد
یہ تصنیف ایک مکمل جہان جیسی ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے والا جانتا ہوگا کہ اس کتاب کی گرفت اس قدر مضبوط ہے کہ انسان اپنے آپ کو انہی مناظر کے آس پاس آمنے سامنے تصور کرنے لگتا ہے۔ یہ عام سفرنامہ نہیں ایک منفرد تصنیف ہے۔ خود کلامی ہے۔۔۔بلکہ خود کا محاسبہ ہے۔۔۔
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ