جنون، کتابیں اور وان گوگ – ڈاکٹر واصف اقبال

میرے کچھ obsessions ہیں، ان میں سے ایک پیدائشی ہے کہ مجھے کتابیں اور گفٹ شاپس اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں. کچھ نہ بھی لینا ہو تو بھی کسی بھی شہر یا ملک کے کتب گھروں میں گھس جاتا ہوں، خواہ مخواہ کتابیں، سٹیشنری اور رنگ رنگ کی چیزیں دیکھتا رہتا ہوں. اکثر جب پوچھا جاتا ہے کہ آپ کو کیا چاہیے تو میرے پاس جواب نہیں ہوتا، کبھی گفٹ پیپر لے آتا ہوں، کبھی کوئی چھوٹی ڈائری یا کوئی قلم__
اس کے پیچھے دو وجوہات ہیں:
شاید بچپن میں ہم جن چیزوں کے لیے ترستے تھے، چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے ان کے لیے نہ ترسیں.
دوسرا یہ کہ مجھ میں کہیں نہ کہیں نا آسودہ خواہشات سے لبریز اور سوچوں کے زیرِ تسلط ایک گنجلک قسم کا آرٹسٹ رہتا ہے.
اطروبہ اور ابیان کے ساتھ جانے کے لیے میری پسندیدہ جگہ سٹیشنری شاپس ہوتی ہیں.

اب کل ہی میں ایک شاپ میں آوارہ گردی کر رہا تھا تو ایک دم چھوٹی سی ڈائری نظر آئی جس پہ وان گوگ (Vincent van Gogh) کی پینٹنگ بنی ہوئی تھی، میں نے فَوراً سبھی ڈائریز اٹھا لیں.
ایک پورا سفر سامنے آ گیا…
جیسے یک بار لوٹ آئے ہوں پھر عدم سے
وہ خواب سارے، شباب سارے

وان گوگ میرا ابتدائی رومان ہے. یہ وہ دیوانہ ہے جو 27 سال کی عمر تک منظر سے غائب رہتا ہے، پھر اگلے 10 سالوں میں 2100 آرٹ کے نمونے تخلیق کرتا ہے. یہ دیوانہ کہتا ہے کہ جب ہم وہی چیز، جو پہلے سے دنیا میں موجود ہوتی ہے، اسے ہو بہو کینوس پر اتار دیتے ہیں تو وہ ہماری تخلیق نہیں ہوتی، بلکہ اصل میں وہ ہم خدا کی بنائی ہوئی چیزوں کی نقل کررہے ہوتے ہیں. نقل کرنا کیمرہ کا کام ہے، آرٹسٹ کا کام احساس پیدا کرنا ہے.
وان گوگ بھی میری طرح جذباتی ہے، تیز تیز جذبات کے اظہار میں تیز تیز برش چلاتا ہے.
وہ جذبات کو کسی جیومیٹریکل پیمائشوں پہ قربان نہیں کرتا. یہ غیر روایتی مصور عمودی، افقی اور ترچھی لکیروں میں جذبات کا صور پھونکتا چلا جاتا ہے. اپنی زندگی میں صرف ایک ہی پینٹنگ فروخت کر پایا. اب لگ بھگ ایک صدی گزرنے کے بعد عام آدمی شاید اس کی ایک پینٹنگ خریدنے کا سوچ بھی نہیں سکتا.
رنگ ریز!
دیوانہ!
عظیم الشان کلیساؤں کو پینٹ کرنے کے بجائے عام لوگوں کی آنکھیں پینٹ کرنا پسند کرتا ہے. کہتا ہے کہ آنکھوں میں کچھ ایسا ہے جو کلیساؤں میں نہیں ہوتا. گلیوں میں دربدر ہونے والے مفلس انسان کی روح ایک کلیسا سے زیادہ اہم ہوتی ہے.
اپنے بھائی کو آخری خط میں لکھتا ہے:
”پیارے تھیو! تھک گیا ہوں
میں ستاروں میں سفر کرنا چاہتا ہوں
لیکن یہ دکھی بدن مجھے واپس تھام رہے ہیں.‘‘
افسردگی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اُس کی ماں نے اُسے بتایا تھا کہ جس تاریخ کو تمہارے بھائی کی موت ہوئی تھی، اُسی تاریخ کو تم پیدا ہوئے تھے اور اُسے ہمیشہ یہی احساس ہوتا رہا کہ اُس کا اپنا کوئی وجود نہیں، وہ ایک متبادل ہستی ہے.
پاگل خانے میں علاج اور قید کے دوران اس نے اپنی مشہور زمانہ پینٹنگ Starry Night بنائی، جس کا ریپلیکا میرے گھر میں بھی موجود ہے.

اپنا تبصرہ بھیجیں