حسنین نازشؔ سے میرا ادبی تعارف خاصا قدیم ہے۔ مگر ٹھہریے! اِتنا بھی قدیم نہیں جتنی کہ میں خود ہوں۔ حسنین نازشؔ صاحب اُس ادبی بیٹھک، جو میں نے چند سال پہلے کاروانِ ادب کے نام سے شروع کی تھی، کے پُر جوش ساتھی رہے ہیں۔ یوں کاروانِ ادب کے پلیٹ فارم سے اُن کی نثر کو بارہا سننے کا موقع ملا۔
حسنین نازشؔ کی تازہ تصنیف کی اِس تقریب کے سلسلے میں اِنہوں نے مجھے فون کیا اور کہا کہ میری خواہش ہے کہ اس کتاب کی تقریبِ پزیرائی میں آپ مضمون پڑھیں کیوں کہ صرف بڑے بڑے نامور لوگوں ہی سے پڑھوانا ضروری نہیں ہوتا تو ساتھیو بڑے بڑے نامور لوگوں میں میرا یہ چھوٹا سا مضمون برضا و رغبت خوئے تسلیم کے ساتھ پیشِ خدمت ہے۔
کتاب سے میرا عشق تو بہت پرانا ہے مگر اِس کتاب کو تجسس کے ساتھ پڑھنے کی ایک خاص وجہ یہ تھی کہ میرا اور حسنین نازشؔ صاحب کا امریکا کا سفر تقریباً ایک ہی زمانے کا تھا۔ یعنی سن 2018ء اور 2020ء اور حسنِ اتفاق کہیے کہ چند مقامات ایسے بھی تھے، جو ہم دونوں کو دیکھنے کا موقع ملا اور دونوں کے سفر نامہ لکھنے کا زمانہ بھی تقریباً آگے پیچھے ہی کا ہے۔ مجھے اِس سفر نامے میں جاننے اور سمجھنے کا تجسس یہ تھا کہ حسنین نازشؔ نے امریکا کی سرزمین کو کس زاویہِ نظر سے دیکھا۔ یہ اور بات ہے کہ کتاب کا سرِ ورق دیکھتے ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ کام جو میں نہیں کرسکی وہ حسنین نازشؔ نے کر دیا۔ خوشی بھی ہوئی، کہ کوئی تو ماں کا لعل ایسا ہے جس نے امریکا کو آگے لگا لیا ہے۔ میرے سفر نامے کا تجسس تو امریکا کی سرزمین کو ناپتا ہوا پیچھے ہی رہا۔
سفر نامہ نگار میں اگر سفر کرنے کی لپک جھپک نہ ہو تو لکھاری نہ تو خود حظ اٹھاتا ہے اور نہ ہی قاری کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔ حسنین نازشؔ میں نہ صرف سفر کی لپک جھپک بدرجہ اُتم موجود ہے بلکہ اُستادانہ نظر بھی احاطہ کرتی ہوئی ہم قدم رہتی ہے۔
یہاں مجھے اپنے اور حسنین نازشؔ کے سفر نامے کا موازنہ کرنا ہرگز مقصود نہیں لیکن ایک بات ضرور سنتے جایئے۔ نازشؔ صاحب اپنی متاعِ جہاں کو چاردیواری کی پناہ میں محفوظ کر کے گئے تھے جب کہ میری متاعِ جہاں میرے ساتھ ساتھ تھی۔ لہٰذا میں مقاماتِ آہ و فغاں سے اُس طرح نہ گزر سکی جس طرح حسنین نازشؔ گُزرے، ایک جگہ لکھتے ہیں:
”میوزیم میں سجی اشیاء ایک طرف، لیکن یہاں ایک چلتی پھرتی، بولتی سنتی لڑکی عابی سے ملاقات نے اِس عجائب خانے میں میری سیر کو چار چاند لگا دیے۔ عابی نے مجھ سے بحرِ اوقیانوس کے ساحل ’’سی ویو‘‘ پر ملنے کا وعدہ کیا۔ میں نے بحرِ اوقیانوس میں رات تو گزاری ہوئی تھی مگر اِس کے ساحل کی حقیقی رونقوں کو دن کے اجالوں میں ابھی تک ٹھیک طرح سے نہیں دیکھا تھا۔ اب اس سے عمدہ اور کیا موقع ہو سکتا تھا کہ ایک خوبرو حسینہ کے ساتھ بحرِ اوقیانوس کے ساحلوں کی سیر کی جائے.‘‘
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سفر نامہ خوب صورت اسلوب، سادہ انداز بیاں کے ساتھ ساتھ چٹ پٹا مسالے دار بھی ہے۔
نازشؔ نے سرمایہ دارانہ نظام کو بھی نزدیک سے دیکھا، پرکھا اور پھر مشاہدے کی آنکھ سے دیکھتے ہوئے اپنے قلم سے صفحہ قرطاس کی زینت بنایا۔
Free Hug کا ترجمہ ”مفت کا معانقہ‘‘ ہے۔ حسنین نازشؔ لکھتے ہیں: ’’میں نے سوالیہ نظروں سے اپنے بچھڑے ہوئے امریکی بھائی کی جانب دیکھا۔ اُس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، جھٹ سے ایک بیگ نکال کر مجھے تھما دیا اور بولا:
Free Hug badges one for one Dollar
میں بھول گیا تھا کہ وال سٹریٹ میں میرا کوئی بچھڑا ہوا بھائی مجھ سے مفت میں گلے نہیں مل رہا بلکہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے مبدا کے ایک چوراہے پر کھڑا ہوں جہاں ایک شخص ایک معانقے کی قیمت بھی وصول کر رہا تھا.‘‘
اِسی طرح دکانوں پر سیل کے اشتہارات کا سلسلہ اور پھر مفت تصویریں بنوانے کے واقعات بھی دل چسپی سے خالی نہیں۔ نیویارک میں صبح کے مناظر دیکھتے ہیں تو زمانی تقابلی جائزہ اُنہیں اِسلامی تعلیمات کے حوالے سے بے چین کر دیتا ہے۔ فرماتے ہیں:
’’زمانہ شاہد ہے کہ لال قلعہ میں ناشتے کا وقت اور دلی کے برطانوی ماتحت علاقوں میں دِن کے کھانے کا وقت ایک ہی تھا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب دو ہزار سے زائد شہزادے بٹیر بازی، مرغ بازی اور کبوتر بازی میں مصروف تھے۔ یہ امریکا ہے جسے آج کی سُپر پاور کہا جاتا ہے۔ اس ملکِ عظیم کے تقریباً پچانوے فی صد سے زیادہ امریکی رات کا کھانا سات بجے تک کھا لیتے ہیں۔ آٹھ بجے تک بستر میں ہوتے ہیں اور صبح پانچ بجے سے پہلے بیدار ہو جاتے ہیں۔ پورے یورپ، امریکا، میں کوئی دفتر، کارخانہ، ادارہ، ہسپتال ایسا نہیں جہاں اگر ڈیوٹی کا وقت نو بجے ہے تو لوگ ساڑھے نو بجے آئیں.‘‘
یہ سب بتانے کے بعد وہ اپنے ملک کے لوگوں کی تنزلی کی طرف پھسلتی ہوئی عادات و خصائل پر کُڑھتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اسلام آباد میں مرکزی حکومت کے دفاتر ہوں یا صوبوں کے، یا پھر نیم سرکاری ادارے… ہر جگہ آج بھی لال قلعہ کی مانند زندگی کا دور دورہ ہے۔‘‘
سیاح جب بھی سیاحت کے لیے رختِ سفر باندھتا ہے، اپنی تہذیب و روایات کو اپنے ساتھ لے کر چلتا ہے اور منزلِ مقصود پر پہنچ کر اُس تہذیب کا بغور مشاہدہ کرتا ہے۔ پھر اُن کے تقابلی جائزے کو قلم بند کر کے آنے والی نسلوں کو سوچنے، سمجھنے اور اپنا راستہ متعین کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
اولڈ ہوم کی صبح کے مناظر پڑھ کر آنکھ اشک بار ہو جاتی ہے۔ نئی روشنی کی چکا چوند میں اولڈ ہوم کی چیختی چنگھارتی تنہائی کا تذکرہ ترقی کی وہ شکل دکھاتا ہے، جو ہماری نظروں سے اوجھل تو نہیں مگر ہم اِس کے پیرو کار ضرور ہیں۔
نائن الیون کے باب میں نائن الیون کے حوالے سے معلومات تو ملتی ہیں، مگر مطلوبہ مقام کو دیکھنے اور اُس مقام کے عینی شاہد کے حوالے سے تذکرہ مفقود ہے۔
زندگی ساکت اور جامد چیز کا نام نہیں۔ جوں جوں زمانہ بدلتا ہے، حالات و اقعات میں بھی تبدیلی آتی ہے۔ تہذیب و تمدن بھی مختلف رنگ و نسل کے لوگوں کے ملاپ اور رشتے ناطوں سے نئے پیرہن بدلتے ہیں۔ فاصلوں کی کمی اور آمدو رفت کی سہولتوں کی وجہ سے زمانہ تیزی سے بدل رہا ہے۔ لہٰذا کسی بھی زمانے میں لکھا جانے والا سفر نامہ مذکورہ زمانے کو لکھاری کی آنکھ سے دیکھتا اور اس کی شبیہہ بناتا چلا جاتا ہے۔ اِس لحاظ سے میں سمجھتی ہوں کہ حسنین نازشؔ کا سفر نامہ امریکا، سادہ اندازِ بیاں، دلفریب اور جدا گانہ اسلوب، امریکی طور طریقے، بود و باش، عمارات کی خوب صورتی، سمندروں پر چلنے پھرنے والی زندگی اور سرمایہ داریانہ نظام کے حوالے سے چونکا دینے والے تجربات کی وجہ سے اپنی انفرادی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا۔
نوٹ: یہ مضمون ”سخن ساز‘‘ ادبی فورم کے زیرِ اہتمام، ”امریکا میرے آگے‘‘ کی تقریبِ رونمائی میں پڑھا گیا.