جنونِ سفر سکول کے زمانے ہی سے تھا۔ سکول کی طرف سے منظم کیے گئےسفروں کے علاوہ میں نے سکول ہی کے زمانے میں اپنے شہر سرگودھا کے قریب دریائے جہلم اور دریائے چناب کے کنارے سیاحتی سفر منظم کیے۔ جب کالج پہنچا تو ابھرتی جوانی میں گھروالوں سے ’’آزادیٔ سفر‘‘ کا حق لینے میں کامیاب ہوگیا، تب مجھے یہ بے تابی شروع ہوگئی کہ پاسپورٹ حاصل کرنے کی عمر کو چھوتے ہی سرحدپار کی دنیا دیکھنا شروع کردوں۔ جب پاسپورٹ حاصل کرلیا تو واہگہ کی سرحدپار کرکے ہندوستان چلاگیا۔ ہندوستان کے سفروں نے میری جہاں گردی میں تربیت کا کردار ادا کیا۔ لیکن میرا خواب تھا کہ اپنے قدم مشرقِ وسطیٰ اور یورپ کی جانب اٹھاؤں۔ اور یوں 1983ء میں مَیں نے اپنی زندگی کی وہ اہم جہاں گردی کی، جس نے مجھے حقیقی معنوں میں جہاںگرد بنا دیا۔ لاہور سے یورپ تک ٹرینوں، بسوں، ویگنوں پر سفر کرتے ہوئے میں نے اپنے اس خواب کو حقیقت میں بدلنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ میں اس سفر کے لیے صرف تین سو ڈالر ہی جمع کرپایا جو اُس وقت پاکستانی بیالیس سو روپے بنتے تھے، اُن تین سو امریکی ڈالروں کو جمع کرنا، اس سفر سے کہیں زیادہ مشکل کام تھا۔ جب سال ڈیڑھ سال میں تین سو ڈالر جمع ہوگئے تو اس سفر کے خواب کی تکمیل کا آغاز ہوگیا۔ مگر مجھے معلوم تھا کہ یہ سرمایۂ سفر بہت کم ہے۔ اس سیاحت کے لیے میرے پاس اس وقت بھی ڈیڑھ دوہزار ڈالرز ہونا چاہیے تھے۔ لیکن میں نے اپنے ارادوں کو اپنی طاقت بنا کراس جہاں گردی پر روانہ ہونے کا فیصلہ کیا اور یوں یہ سفر اس کتاب (میں ہوں جہاں گرد) کا سبب بن گیا۔
1983ء میں دنیا بہت مختلف تھی۔ کسی بھی جگہ کی معلومات حاصل کرنا آج کی طرح آسان نہیں تھا اور نہ ہی ان ممالک کے حوالے سے زیادہ لٹریچر دستیاب تھا۔ اس لیے سیاحت آج کے مقابلے میں کہیں مشکل تھی۔ دوسرے ایک نوجوان طالب علم ہونے کے ناتے کم وسائل بھی معلومات کے حصول کے لیے کافی نہیں تھے۔ اتنے وسائل نہ تھے کہ ڈھیر سی کتابیں خریدتا، اس لیے بڑا ذریعۂ معلومات پنجاب پبلک لائبریری تھی اور وہاں بھی پرانی کتابیں زیادہ تھیں اور نئی کم۔ خصوصاً بلغاریہ جیسے سوشلسٹ ممالک کے حوالےسے لٹریچر کی دستیابی مشکل ہی نہیں خطرناک کام تھا۔ ہمارے ہاں اگر آپ اُن دنوں کسی کمیونسٹ ملک کے بارے کچھ پڑھتے پکڑے جاتے تو آپ جیل کی ہوا کھا سکتے تھے۔ اس لیے میں نے اس سفر پر روانگی سے پہلے کوئی دواڑھائی سال معلومات، کتابیں اور چند ایک نقشہ جات تک رسائی میں لگائے۔
’’میں ہوں جہاں گرد‘‘ ایک ایسی سیاحت کی داستان ہے کہ اگر آج دوبارہ انہی راہوں پر سفر کیا جائے تو آج کی دنیا اُس سے بہت بدل چکی ہے۔ خمینی کا ایران جہاں انقلاب کی حدت ابھی جوبن پر تھی، ترکی جہاں کنعان ایورن کا مارشل لاء عروج پر تھا اور بلغاریہ میں کمیونزم… میں نے اس سیاحت کے دوران جہاں جہاں سفر کیا، وہ قصبے، شہر اور ملک آج اڑتیس برس بعد بہت حد تک بدل چکے ہیں۔ اس لیے میں نے اپنے اس سفرنامے کو 1983ء کے وسط میں کیے گئے سفر تک ہی محدود رکھا ہے۔ تین دہائیاں بیت جانے کے بعد، اپنے مشاہدات، واقعات، رُوداد کو اپنی ڈائری پر لکھے چند ایک نوٹس اور یادداشتوں سے کرید کرید کر رقم کرنا خاصا دشوار کام تھا، اس کے لیے کرونا کی وبا نے وہ وقت فراہم کردیا جو اس عرق ریزی کے لیے درکار تھا۔ مجھے اس کتاب کو لکھنے میں دوسال لگے اور میں نے آج تک جو کچھ بھی تحریرکیا، اس میں یہ مشکل ترین تھا۔ خصوصاً اس زمانے میں منجمد رہ کر لکھنا کہ اگر 1983 ء میں استنبول کی آبادی پچاس لاکھ تھی تو اسے ویسا ہی لکھنا، یا وہ ایران جہاں ابھی امام خمینی حیات تھے اور ایران عراق جنگ اپنے عروج پر تھی اور سب سے بڑھ کر سوشلسٹ بلغاریہ کو اُسی زمانے میں قید رہ کر لکھنا ایک محقق اور سیاح کے طور پر کٹھن کام تھا۔ بلغاریہ جو میں نے دیکھا، وہ کمیونسٹ بلغاریہ تھا جب کہ آج کا بلغاریہ سرمایہ دار دنیا کا اہم ملک ہے… اور پھر مشکل یہ کہ بلغاریہ کے کئی محلوں، گلیوں، شاہراہوں، بستیوں حتیٰ کہ شہروں کے نام بھی بدل گئے، سارا نظام ہی بدل گیا۔ خود کو اڑتیس سال پیچھے لے جا کر اُس زمانے میں رہ کر لکھنا میرے لیے ایک منفرد تجربہ بھی ہے۔
میں نے 1983ء کے اس سفر کے بعد دنیا بھر کی جہاںگردی کی، مگر اس اوّلین سفر کو سفرنامے کی صورت دینا میرے لیے یوں ضروری تھا کہ میں اس کے بعد دنیا کے مختلف ممالک کی سیاحت کو ترتیب سے لکھ سکوں۔
گزشتہ چار دہائیوں میں یعنی اپنی جہاں گردی میں مَیں نے لاتعداد سفر کیے اور لاتعداد سفرنامے پڑھ چھوڑے، اُردواور دوسری زبانوں میں مختلف قسم کے سفرنامے، دوسرے ممالک کے جدید اور قدیم سفرنامہ نگاروں کے سفرنامے… ان میں ابن بطوطہ، واسکوڈی گاما جیسے شہرہ آفاق سیاحوں کے علاوہ مجھے جن دو سیاحوں نے حیران کن حد تک متاثر کیا، ان میں ایک عثمانی دَور کا ترک سیاح اولیا چلیبی – Evliya Çelebi (1611-1682ء) جس نے عثمانی سرحدات تک سیاحت کی اور دوسرا مسلم ہسپانیہ کا ابوعبداللہ محمد الادریسی القرطبی الحسنی السبتی – Muhammad al-Idrisi (1100-1165ء)۔ میرے نزدیک یہ دوسیاح بے مثال ہیں۔ اولیا چلیبی پر آج کا جدید ترکی نازاں ہے اور ایسے ہی آج کا سپین جہاں صدیوں پہلے مسلم حکمرانی ختم ہوگئی مگر آج کے اس سپین کو بھی اپنی دھرتی پر جنم لینے والے اس عظیم سیاح محمد الادریسی پر فخر ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ وہ سپین کے جس شہر Ceuta میں پیدا ہوا، وہاں اس کا مجسمہ نصب کیا گیا ہے۔
’’میں ہوں جہاں گرد‘‘ اُن خطوں کی سیاحت ہے جہاں میں نے 1983ء کے اس سفر میں قدم دھرے۔ وہاں کے لوگ، سماج، سیاسی نظام، تاریخ، تہذیب، آرکیالوجی اور بہت کچھ اور اسی کے ساتھ وہ داستانیں جو اس سفر کے دوران برپا ہوئیں، یعنی کئی لوگ جن سے میں دورانِ سفر ملا جو اس سیاحت اور سفرنامے کے اہم کردار ہیں۔ ’’میں ہوں جہاں گرد‘‘ کو اس سارے پس منظر، زمانے اور اُن ایام میں رہ کر لکھنے کے بعد مجھے جو اطمینان حاصل ہوا، وہ ایسے ہی ہے جیسے میں نے اپنے کندھوں سے ایک بڑا قرض اتار دیا ہو۔
اس جہاں گردی کو اوراق پر منتقل کرنے کے دوران میرے جن پیاروں نے ساتھ دیا، اگر اُن کا شکریہ ادا نہ کروں تو زیادتی ہوگی۔ میرے والد محمد یعقوب گوئندی مرحوم جو اس تحریر کو پڑھنے کے منتظر تھے، وبا کے دنوں میں جب میں ’’گھربند‘‘ تھا تو وہ مجھے فون کرتے اور پھر جلدی میں یہ کہہ کر فون بند کردیتے، ’’بیٹا، اپنی کتاب پر کام کرو، میں تمہارا زیادہ وقت نہیں لوں گا۔‘‘ مگر افسوس کہ وہ اس کتاب کی تکمیل سے پہلے ہی اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے۔
میری شریک حیات ریما عبداللہ گوئندی کسی استانی کی طرح رات اور ہر صبح پوچھتیں کہ ’’کتنا لکھا ہے‘‘ اور یوں وہ مجھے میرے کام کی ذمہ داری کا احساس دلاتیں۔ میری والدہ کلثوم گوئندی کہ جب انہوں نے دیکھا کہ کتاب لکھنے کی خاطر میں نے اُن کی ڈائننگ ٹیبل پر کتابوں، ڈائریوں اور کاغذ کے پلندووں کا انبار لگا رکھا ہے تو بہت خوش ہوکر دعا دیتیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے قلم سے نکلے الفاظ کو لوگوں کے دلوں میں اتار دے۔ مصباح سرفراز جو پبلشر کی حیثیت سے مجھ لکھاری پر محبت سے دباؤ ڈالتیں کہ اپنی کتاب جلد مکمل کریں، مصباح سرفراز اور ہماانور ہر صفحے کو رقم طراز کرنے کے بعد مددگار رہیں ۔اگر میرے دوست محمد چوہان صاحب کی معاونت نہ ہوتی تو اس کتاب میں کئی اہم بلغارین الفاظ، نام اور اصطلاحات اپنی درست حالت میں نہ لکھی جاتیں۔ چوں کہ انہوں نے کمیونسٹ بلغاریہ میں تعلیم حاصل کررکھی ہے، اس لیے اُن کی الفاظ، ناموں اور اُس زمانے تک رسائی ہے۔ اسلم ملک صاحب نے اس مسودے کو ایک ایڈیٹر کے طور پر دیکھا، ان کا شکریہ ادا کرنا میں کیسے بھول سکتا ہوں۔ میں اپنی ترک دوست زینب کاراحان کا بھی مشکور ہوں جنہوں نے کئی مواقع پر ترکی کے حوالے سے کیے گئے میرے سوالات کے جوابات کی تصدیق کی۔ بلغاریہ میں ایک پاکستانی دوست مسعود صاحب جو زمانۂ طالب علمی کے بعد وہیں کے ہوکر رہ گئے، انہوں نے بھی بلغاریہ کے حوالے سے میرے کچھ سوالات پر مدد کی۔ اور میرے نئے بلغار دوست ستانیمیررادیو کا بھی میں بے حد ممنون ہوں کہ وہ بھی کئی بار لکھتے ہوئے میرے مددگار ثابت ہوئے۔ سب سے آخر میں اپنے ایک استاد مرزا مظفر مرحوم کا شکرگزار ہوں جوگورنمنٹ کالج سرگودھا میں ایف اے میں میرے استاد تھے، جب میں نے بڑی کوشش کرکے پاکستان کی معروف درس گاہ گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لے لیا جہاں انہوں نے ایک بار پھر میرا استاد ہونا تھا تو انہوں نے مجھ سے کہا، ’’گوئندی، تم جنرل ضیا کے خلاف جس قدر متحرک ہو، اگر اس کالج میں داخل ہوئے تو چند ہی روز میں دھر لیے جاؤ گے۔‘‘
اُن کی یہ نصیحت مجھے ایک نئی دنیا میں لے گئی، جہاں گردی کی دنیا۔
تب میں نے اپنے مرحوم استاد مرزا مظفر سے کہا، ’’توٹھیک ہے، میں ہوا جہاں گرد۔‘‘
نوٹ: یہ مضمون فرخ سہیل گوئندی صاحب کی نئی کتاب ’’میں ہوں جہاں گرد‘‘ میں دیباچہ کے طور پر شائع ہوا ہے. 820 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 1,380 روپے مقرر کی گئی ہے. یہ کتاب منگوانے کے لیے ’’جُمہوری پبلیکیشنز، لاہور‘‘ سے درج ذیل نمبر پر رابطہ کیا جا سکتا ہے:
92-333-4463121+