ایک روزدفتری امور کی انجام دہی میں مصروف تھا کہ انٹرنیٹ پر ایک کتاب کے بارے میں پڑھنے کو ملا۔ کتاب تھی ’’نہرکنارے‘‘ جسے تحریر کیا پروفیسر ڈاکٹر نعیم کیفیؔ نے۔ کتاب ڈاکٹر صاحب کے اُن ایام کی یادداشتوں کا مجموعہ ہے جو انہوں نے زمانہ طالب علمی میں پنجاب یونیورسٹی کے اولڈ کیمپس میں گزارے۔ کتاب پڑھنے کا اشتیاق پیدا ہوا تو رابطہ نمبر پر ایک وٹس ایپ پیغام بھیج چھوڑا۔ اگلے روز دفتر پہنچا تو ایک کال وصول ہوئی۔ یہ ڈاکٹر نعیم کیفیؔ صاحب کے معاون ناصر جبار صاحب تھے۔ دعا سلام اور بنیادی معلومات کے تبادلہ کے بعد فون بند ہوا تو ایک اور کال وصول ہوئی۔ اب کی بارڈاکٹر نعیم کیفیؔ صاحب خود لائن پر موجود تھے۔ مختصر تعارف کے بعد طے پایا کہ ملاقات کی جائے۔ یوں ایک روز میں اسلام آباد کے سیکٹر ایچ الیون فور میں واقع اسلام آباد سائنس سکول اینڈ کالج میں جا پہنچا۔ استقبالیہ پر موجود خاتون سے آنے کی وجہ بیان کی تو انہوں نے ایک معاون کے ہمراہ ایک کمرے کی جانب بھیج دیا۔ کمرے میں داخل ہوا تو یہ میری ڈاکٹر نعیم کیفیؔ صاحب سے پہلی ملاقات تھی۔ سلام دعا کے بعد ڈاکٹر صاحب گویا ہوئے: ’’ارے آپ تو میری توقع سے زیادہ جوان ہیں۔‘‘
میں اس بات کے جواب میں صرف مسکرا ہی سکا اور یوں ڈاکٹر صاحب سے بات چیت چل نکلی۔
درس و تدریس سے منسلک ڈاکٹر نعیم کیفیؔ جن کا اصل نام نعیم طارق ہے، 1949ء کو لائل پور (موجودہ فیصل آباد) میں پیدا ہوئے۔ آپ نے سکول اور کالج کی تعلیم اپنے شہر میں ہی حاصل کی۔ 1970ء میں ڈاکٹر نعیم کیفیؔ نے نفسیات کے مضمون میں جامعہ پنجاب، لاہور سے ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ اسی سال آپ نے گورنمنٹ کالج، فیصل آباد میں نفسیات کے لیکچرار کی حیثیت سے تدریسی خدمات کا آغاز کیا۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر نعیم کیفیؔ نے 1973ء سے 1976ء تک پاک فضائیہ میں ماہرِ نفسیات کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔ 1978ء میں آپ نے قومی ادارہ نفسیات، قائد اعظم یونیورسٹی، اسلام آباد میں شمولیت اختیار کی اورکم و بیش تیس سال اس ادارے سے منسلک رہنے کے بعد 2009ء میں بطور پروفیسر/ڈائریکٹر یہاں سے ریٹائرڈ ہوئے۔ یاد رہے کہ نعیم کیفیؔ صاحب نے 1992ء میں قائد اعظم یونیورسٹی، اسلام آباد سے ہی نفسیات کے شعبہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی.
پروفیسرڈاکٹر نعیم کیفیؔ 1982ء سے 83 تک برطانیہ کی سوسیکس یونیورسٹی سے بطور ریسرچ فیلو اور1999ء سے 2000ء تک امریکہ کی پین سٹیٹ یونیورسٹی سے بطور فل برائیٹ سکالر منسلک رہے۔ بعد کے مختلف اوقات میں آپ وینیئرکالج مانٹریال، کینیڈا سے وزیٹنگ پروفیسر کے طور پر بھی وابستہ رہے۔ اسی طرح آپ ملائیشیا کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، کوالالمپورمیں بھی نفسیات کے پروفیسر کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر نعیم کیفیؔ نےایم فل اور پی ایچ ڈی کے سکالرز کے سپروائزر کے طور پر بھی کام کیا۔ آپ کے تحقیقی مقالے بہت سے ملکی اور بین الاقوامی جرنلز میں شائع ہو چکے ہیں۔ فی الوقت ڈاکٹر نعیم کیفیؔ چلڈرن، یوتھ اینڈ فیمیلیز فائونڈیشن، اسلام آباد کے بانی صدر نشین ہیں اور بطور ماہر نفسیات پیشہ ورانہ خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
بات کی جائے آپ کی ادبی خدمات کی تو زمانہ طالب علمی سے مطالعہ کتب، انگریزی اور اُردو ادب سے شوق اورلکھنے سے شغف کی بنا پر اب تک آپ کی پانچ مختلف تخلیقات منصئہ شہود پر آ چکی ہیں۔ اپنے ادبی نام کیفیؔ کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے پروفیسر صاحب لکھتے ہیں کہ ”کیفیؔ میرے چند قریبی دوستوں کا دیا ہوا وہ ”ناپسندیدہ‘‘ نِک نیم ہے جسے میں نے ایک دوست کی ناگہانی وفات، دوسرے کی بے وفائی اور تیسرے کے لاپتہ ہونے پر بخوشی اپنا لیا ہے۔‘‘
کیفیؔ صاحب کی کہانیوں کے بارے میں ان کے اتالیق اور قومی ادارہ نفسیات کے سینئررفیقِ کار ڈاکٹر ظفر آفاق انصاری یوں رقم طراز ہیں:
”میں نعیم کیفیؔ کی تمام کہانیاں پڑھ چکا ہوں اور ان کے مشاہدے اور کردار نگاری کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ بعض جگہ چھوٹے چھوٹے کاٹ دار فقروں اور حقیقت کو سفاکی سے بیان کرنے کی وجہ سے ان کا اسلوب منٹوکے قریب جا پہنچتا ہے۔‘‘
اب ذکر ہو جائے پروفیسر ڈاکٹر نعیم کیفیؔ صاحب کی کتب کا، جن کی تفصیل کچھ یوں ہے:
پہلی اور دوسری کتاب ”سفرِ رائیگاں‘‘ کے عنوان سے 350 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس افسانوی مجموعہ کے دو حصے ہیں۔ حصہ اول ”سفرِ رائیگاں‘‘، جس میں 8 افسانے ہیں جب کہ دوسرا حصہ ”سعی لاحاصل‘‘ کے عنوان سے ہے اور اس میں کُل گیارہ افسانے تحریر کیے گئےہیں۔ پہلے حصہ میں شامل افسانوں میں ایک افسانہ ”سفرِ رائیگاں‘‘ کے عنوان سے بھی ہے اور مستقبل میں یہی افسانہ کیفیؔ صاحب کے ایک ناول ”جیری ایٹرک کیئر‘‘ کا موجب بنا۔ پہلے حصہ میں شامل تمام افسانے ترکِ وطن کرنے والے افراد کے حوالہ سے ہیں۔ یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ ہجرت اس مجموعہ میں شامل افسانوں کا بنیادی موضوع ہے اور یہ دیار غیر میں بسنے والے پاکستانیوں کے معاشی، معاشرتی اور نفسیاتی مسائل کا احاطہ کرتا ہے۔ ”سعی لاحاصل‘‘ میں شامل افسانے کسی خاص موضوع سے متعلق نہیں بلکہ یہ انسانی جذبات و احساسات، رویوں اور کردارکے متفرق موضوعات کا مجموعہ ہے جس میں نفسیاتی اور عام معاشرتی پہلو زیرِ بحث رہے ہیں۔ اس کتاب میں جوانی سے لے کر بھرپور زمانوں تک کی سچی اور کھری باتوں کا ذکر ہے۔ مصنف کا انداز بیان دلچسپ اور رواں ہے اور قاری کو آخر تک جکڑے رکھتا ہے۔
کتاب ”نہرکنارے‘‘ کے بارے میں پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ یہ کتاب پروفیسر ڈاکٹر نعیم کیفیؔ کی یادداشتوں کا مجموعہ ہے۔ یہی وہ کتاب ہے جو پروفیسر صاحب سے تعارف کا ذریعہ بنی۔ سولہ ابواب اور 334 صفحات پر مشتمل یہ کتاب 2019ء کی تخلیق ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر نعیم کیفیؔ ایم ایس سی نفسیات کے زمانہ طالب علمی یعنی 1968ء سے 1970ء تک، جامعہ پنجاب کے شعبہ نفسیات میں زیر تعلیم رہے. اس دوران وہ پنجاب یونیورسٹی کے نیوکیمپس، لاہور کے ہاسٹل میں مقیم رہے۔ کتاب ”نہرکنارے‘‘ اسی دور کی ایک دلچسپ داستان ہے جس میں نصف صدی پہلے کے واقعات و مشاہدات درج ہیں کہ کیسے ایک طالب علم نے اُس زمانے کو دیکھا۔ اس کتاب بارے ڈاکٹر ظفر آفاق انصاری لکھتے ہیں کہ ”جس تحریر نے (مجھے) سب سے زیادہ متاثر کیا ہے وہ ”نہر کنارے‘‘ ہے۔ مصنف نے اسے اپنی مضمحل رگوں میں خون کی گردش بڑھانے کی خاطر لکھا لیکن اس کا اثر متعدی معلوم ہوتا ہے، اس لیے کہ اوروں پر بھی یہ فصلِ بہار گزر چکی۔ اس دور کی رنگینیوں اور تلخیوں کی عکاسی انہوں نے خوب کی ہے۔‘‘
میرے خیال میں یہ کتاب محض ایک کہانی یا کہانیوں کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ اس میں مختلف نفسیاتی مسائل پر سیر حاصل بحث بھی کی گئی ہے اور ساتھ ہی ان کا حل بھی بتایا گیا ہے۔ نفسیات کے طالب علموں اور سماج کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے بلاشبہ یہ کتاب دلچسپ اور مفید ثابت ہو سکتی ہے۔
2020ء میں پروفیسر صاحب کا ایک بہت عمدہ ناول ”جیری ایٹرک کیئر‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ یہ کتاب 245 صفحات پر مشتمل ہے۔ ناول کے انتساب میں مصنف لکھتے ہیں: ”ان لوگوں کے نام جو کسی نہ کسی وجہ سے اپنا وطن چھوڑ گئے اور پھر خواہش کے باوجود واپس نہ آ سکے۔‘‘
جیسا کہ پہلے یہ بیان کیا جا چکا ہے کہ اس ناول کا محرک پروفیسر صاحب کی کتاب ”سفرِ رائیگاں‘‘ میں اسی نام سے شامل کہانی ہے جس میں تارکینِ وطن کے مختلف مسائل پر گفتگو کی گئی ہے۔ تیسری دنیا کے بہت سے نوجوان اپنے معاشروں میں موجود ناامیدی، ابتر معاشی حالات، کرپشن، غربت، طبقاتی تقسیم، صاحبانِ اقتدار اور ثروت مند لوگوں کی بے حسی، مناسب روزگار کے فقدان، نا انصافی، جبر، بد امنی کی صورتِ حال اور دیگر مسائل سے تنگ آ کر اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اوربہتر حالات اور اچھے روزگار کی خاطر دنیا کے مختلف ترقی یافتہ علاقوں مثلاً امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، یورپ اور عرب خطوں کا سفر اختیار کرتے ہیں۔ اس نقل مکانی اور ہجرت کے باعث بہت سے نفسیاتی، سماجی، معاشی، اخلاقی و معاشرتی مسائل جنم لیتے ہیں۔ یہ ناول ”جیری ایٹرک کیئر‘‘ انہی مسائل اور حالات پر بحث کرتا نظر آتا ہے۔ اُردو میں اس موضوع پر لکھ کر ڈاکٹر صاحب نے دیگر بہت سے ادیبوں کی طرح اپنا فرض بخوبی ادا کیا ہے۔ اس ناول میں ڈاکٹر صاحب نے اپنے مشاہدے کی بنیاد پر اس قدر عمدہ کہانی پیش کی ہے کہ کوئی بھی تارکِ وطن اسے پڑھ کر خود کو اس کا کردار سمجھنے میں دیر نہیں لگائے گا۔
پروفیسر ڈاکٹر نعیم کیفیؔ نے ”گھاٹے کا سودا‘‘ کے نام سے 2021ء میں ایک ناولٹ بھی تحریر کیاہے۔ یہ ناولٹ تین ادوار پر مشتمل ہے۔ 129 صفحات پر مشتمل اس کتاب کا انتساب ”سراب کے پیچھے دوڑنے والوں کے نام‘‘ کیا گیا ہے۔ اپنی اس کتاب کے بارے میں مصنف لکھتے ہیں کہ ”ارادہ تو ایک ناول لکھنے کا تھا لیکن مجھ جیسے (مصروف) شخص کے لیے یہ ایک مشکل اور وقت طلب کام ہے اس لیے ایک طویل افسانے پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔‘‘
پروفیسر ڈاکٹر نعیم کیفیؔ سے اس ملاقات کے آخر میں ڈاکٹر صاحب نے اپنا افسانوی مجموعہ ’’سفررائیگاں‘‘ اور اُردو ناول ’’جیری ایٹرک کیئر‘‘ پیش کیے۔ ڈاکٹر نعیم کیفیؔ صاحب کے بقول اُن کی مجھ سے یہ پہلی ملاقات متاثر کُن تھی، جس کا ذکر انہوں نے ناول پر اپنے نقشِ تحریر میں کیا۔