سفرناموں کا خمار – محمد اکبر خان اکبر

ایڈیٹر ”کتاب نامہ‘‘، محترم ثاقب بٹ نے جب میرے کتب خانے میں سفرناموں کی تعداد بابت استفسار کیا تو میرا بھی شوق پیدا ہوا کہ اتنے عرصے سے جو سفرنامے جمع ہو رہے ہیں، ان کا ایک جائزہ تو لے لیا جائے. کتنے ممالک کے سفرنامے ہیں؟ کتنے مصنفین کے لکھے سفرنامے اور کتنی تعداد میں موجود ہیں؟

ناشتے کے بعد میرے قدم لائبریری کی طرف اٹھے. وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ کُل دو سو سے زائد اُردو سفرنامے موجود ہیں جن میں سب سے زیادہ سفرنامے کثیر ملکی ہیں. یعنی وہ جن میں دو یا دو سے زائد ملکوں کے سفر کا حال درج ہے، جن کی تعداد 62 تھی. ان میں ابنِ بطوطہ، مارکوپوکو اور فان ہیان کے سفرنامے بھی شامل ہیں.
اس کے بعد سب سے زیادہ سفرنامے حیرت انگیز طور پر اندرونِ پاکستان کے سفر کے بارے میں تھے. جن میں شمالی علاقہ جات، کمراٹ، بہاولپور، بلوچستان اور دیگر علاقوں کے اسفار کے بارے لکھا گیا ہے.
اس ہے بعد اس سے زیادہ بڑی تعداد ان سفرناموں کی ہے جو حج سے متعلق ہیں. ان میں سعودی عرب کے سفرنامے بھی شامل ہیں جن کی تعداد 21 ہے.
سعودی عرب کے بعد انفرادی طور پر جس ملک کے اُردو سفرنامے زیادہ تعداد میں پائے گئے، وہ ہندوستان ہے جس کے 15 سفرنامے میرے پاس موجود ہیں. امریکہ کے 14 سفرنامے جن میں جی الانہ کا سفرنامہ بھی میرے مجموعہ میں شامل ہے.
کل ملا کر تیس سے زائد ممالک کے اُردو سفرنامے میرے کتب خانے کی زینت ہیں. ان میں چند ایک منفرد قسم کے سفرنامے ہیں جیسے ”زنجبار سے پاکستان‘‘ غلام حسین زنجباری کا ایسا سفرنامہ ہے جو اس کے وطن زنجبار، موجودہ تنزانیہ سے پاکستان تک سائیکل کے سفر پر مبنی ہے. اسی طرح ایک سفرنامہ اسرائیل کا بھی ہے. ان میں سے آٹھ سے دس سفرنامے ایسے ہیں جو مجھے مصنفین کی جانب سے تحفتاً دیے گئے ہیں.
سب سے زیادہ حکیم محمد سعید کے لکھے ہوئے سفرنامے میری لائبریری کا حصہ ہیں. مستنصر حسین تارڑ، محمد اختر ممونکا، قمر علی عباسی، حسنین نازشؔ، ممتاز مفتی، بیگم اختر ریاض الدین، سفیان علی فاروقی وغیرہ کے تحریر کردہ سفرنامے بھی ان میں شامل ہیں.
سفرنامہ نگاری بلاشبہ اُردو ادب کی ایک مقبول صنف ہے. یہی وجہ ہے کہ اب تک ہزاروں کی تعداد میں سفرنامے شایع ہوکر قارئین کی داد پا چکے ہیں اور کوئی سال ایسا نہیں گزرتا جس میں نئے سفرنامے شایع نہ ہوئے ہوں.