آگہی کا سفر – محمد اکبر خان اکبر

رانا خالد محمود قیصر کہنہ مشق ادیب ہیں. ”آگہی‘‘ ان کی ایک منفرد تصنیف ہے. عصرِ حاضر میں ایسے لوگ انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں جو تحقیق و تنقید کے شعبے میں اپنی صلاحیتیں منوا رہے ہوں. رانا خالد محمود قیصر کی اس تصنیف میں پچیس مضامین شامل ہیں اور ہر مضمون اپنی ایک جدا شناخت رکھتا ہے. مصنف چوں کہ مستند محققین کی صف میں شامل ہیں اس لیے ان کے مضامین پر تحقیق کی گہری چھاپ دکھائی دیتی ہے. اس معاملے میں وہ ایک امتیازی حیثیت رکھتے ہیں. جس طرح ان کا ادبی کام متنوع ہے اسی طرح ان کے تحقیقی و تنقیدی مضامین متنوع خصوصیات کے حامل ہیں.
رانا صاحب بے پناہ پیشہ ورانہ مصروفیات کے باوجود اتنے معیاری مضامین لکھتے ہیں کہ قاری حیرت کے وسیع سمندر میں ڈوب جاتا ہے. وہ فن تحقیق کی باریکیوں سے آگاہ ہیں اور اپنی تحقیق قارئین کے سامنے رکھنا بھی جانتے ہیں. ان کا یہ مجموعہ ہائے مضامین ان کے ادبی رسوخ اور تحقیقی اسلوب کا اعلٰی فن پارہ ہے.
رانا خالد محمود قیصر نے تحقیق کی مختلف تکینیکوں کو خوب برتا ہے. زیرِ تبصرہ کتاب میں کئی کتابوں پر تحریر کردہ چند دلچسپ تبصرے بھی شامل ہیں. اس کتاب سے قبل بھی ان کے مضامین کے مجموعے شایع ہو چکے ہیں اور ادبی حلقوں میں پذیرائی حاصل کر چکے ہیں.
آگہی قاری کو علم و ادب کی تابانی سے روشناس کرواتی ہے. ادب پروری سکھاتی ہے، میدان ادب کے ستاروں کا تعارف کرواتی ہے، دنیائے ادب کی نئی منزلوں سے آشنا کرواتی ہے اور ادب سے دوستی کا درس بھی دیتی ہے.
عصرِ حاضر میں مطالعہ کا ذوق دم توڑنے کو ہے اور ایسے میں رانا خالد محمود جیسی ادب پروری کرنے والی شخصیات شائقین علم و ادب کا اثاثہ اور واحد امید ہیں. ان کی کتاب کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ وہ ادب کے نئے نقوش اور خدوخال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور یہی ان کے عملی ذوق کی طاقتور ترین دلیل ہے.
کوئی بھی ادبی فن پارہ اپنے تخلیق کار کی محنت کا مرہون منت ہوا کرتا ہے جو اس کے ادبی قد کاٹھ کا تعین بھی کرتا اور اس کی کھلی ترجمانی بھی.
رانا خالد محمود قیصر ماشاء اللہ ادبی اعتبار سے بلند قامت اور رفیع الشان مرتبے کے لیے حامل ہیں. اس لیے یہ یقین اور غالب گمان سے کہہ سکتا ہوں کہ ان کی یہ کتاب ہمارے ادبی سرمائے کا اہم جزو اور ان کے انتقادی فکر کا اعلٰی نمونہ ہے.