پتنگ نے ہمیں تنگ کر رکھا ہے. آئیے! ہم پتنگ کو تنگ کریں۔ پتنگ کے خاص و عام ’’مشہورو بدنام‘‘ نام یہ ہیں:
پتنگ، گڈا، کائٹ، کاغذی جہاز، کاغذی پرندہ، کاغذی مخلوق اور ہوائی مخلوق۔ جہاں اس کے نام مشہور ہیں وہاں اس کی اقسام کی شہرت و نامور ی بھی کچھ کم نہیں. تاہم درج ذیل اقسام شہرت کے بام عروج تک پہنچ چکی ہیں:
موم پتنگ، کاغذی پتنگ، پری، تکونا، شرلاٹا، چھجل اور پان۔
آئیے! پتنگ کے بارے مزید جانیں کہ آخر یہ ہے کیا چیز جس نے اتنا تنگ کر رکھا ہے۔۔۔
دیگر معاملات کی طرح ہماری قوم پتنگ کی تاریخ کے بارے میں بھی متفق نہیں۔ متفق نہ ہو تو ہی ہمارے لیے بہتر ہے. کچھ کہتے ہیں کہ سب سے پہلا پتنگ ناروے کے ایک باشندے نے اڑایا تھا مگر بعض کے نزدیک پتنگ چینیوں کی ایجاد ہے۔ بعض کے خیال میں پتنگ مغلوں کے دور میں ایجاد ہوا۔ شاید اسی لیے پتنگ بازی کا کھیل مغلوں میں بہت مقبول تھا۔ مغل شہزادے اسے بڑے شوق سے بناتے اور اڑاتے تھے۔ پتنگ بازی شاہی کھیل ہونے کی وجہ سے آج ہمارے شاہی بچے، جوان اور بوڑھے سبھی اس پر شہزادوں کی طرح رقوم خرچ کرتے ہیں۔ بعض روایات کے مطابق پتنگ بازی کا کھیل قدیم یونانیوں نے ایجاد کیا، بعد ازاں یورپی اور مشرقی ممالک میں عام ہو گیا مگر یہ چین اور ہندوستان میں کچھ زیادہ ہی ’’عام‘‘ ہو گیا ہے۔
اُردو میں یہ پتنگ کہلاتا ہے. اگر اس کے ساتھ حرف ’’پ‘‘ نہ ہوتا تو یہ ہر کسی کو تنگ کرتا۔ البتہ ’’پ‘‘ کا ساتھ ہونا ہمیں کچھ فائد ہ دیتا ہے لیکن پھر بھی یہ والدین اور ہمسایوں کو روزانہ تنگ کرتا ہے۔ اکثر اوقات واپڈا، اوقاف، مواصلات، واسا، زمین اور تعلیم والوں کو بھی تنگ کرتا ہے۔ اس لیے یہ محکمے عوام سے تنگ ہیں اور عوام ان سے تنگ ہیں جبھی تو سارا ملک ’’تنگ دستی‘‘ کا شکار ہے۔
انگریزی میں اس کو کائٹ کہتے ہیں۔ اگر اس کے درمیان ’’ء‘‘ نہ ہوتا تو یہ ہر چیز کاٹتا چلا جاتا گو کہ ’’ء‘‘ نے ہمیں چیزوں کی کٹائی سے بچا لیا ہے لیکن پھر بھی یہ اپنے اڑانے والوں کے ہاتھ پاؤں کاٹ جاتا ہے۔ دوسروں کی گردن کاٹنے کے واقعات تو اب عام ہو گئے ہیں، کبھی کبھی ماں باپ کی ناک کٹوا دیتا ہے، جیب کٹوا دیتا ہے اور لڑائی جھگڑے پر پیٹ کٹوا کر ’’ہمیشہ کا آرام‘‘ نصیب کراتا ہے۔
ہم اس کو گڈا یا گڈی کہتے ہیں۔ یہ گڈا گڈی بچوں کے گڈا گڈی کی طرح ایک دوسرے سے شادی نہیں کرتے بل کہ دونوں شادی کے قابل ہی نہیں ہوتے، مقابلے کے قابل ہوتے ہیں اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پتنگ باز کو غصہ آ جائے تو توڑ مروڑ کر چولہے کے سپر د کر دیتا ہے یا پھر ’’چمڑی‘‘ ادھیڑ کر اس کی ’’ہڈیوں‘‘ سے جھاڑو بنا لیتا ہے۔
پتنگ بازی کا کھیل خوش گوار موسم میں زوروں پر ہوتا ہے یعنی زیادہ گرمی اور سردی میں آپ کو تنگ نہیں کرتا کیوں کہ انسان پہلے ہی ’’بہت تنگ‘‘ ہوتا ہے البتہ فروری میں بہت تنگ کرتا ہے۔ آج کل پتنگ بازی کو شاہی سر پرستی سے نواز کر مغلوں کی یاد تازہ کی جاتی ہے۔ آخر وہ ہمارے اسلاف تھے، ہمارا کچھ تو ’’حق‘‘ بنتا ہے۔ اس کا شاہی میلا فروری میں جوبن پر ہوتا ہے جس کو ’’جشنِ بہاراں‘‘ کا نام دے کر قومی دولت خوب ’’اُڑائی‘‘ جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ ’’جشن بہاراں‘‘ کا افتتاح کوئی شاہی وزیر، مشیر ہی کرتا ہے اس لیے اس میں شامل ہونے کے لیے ’’شاہی‘‘ ہونا ضروری ہے۔ اس کا وجود ’’اردو‘‘ سے زیادہ پرانا نہیں ہے لیکن پھر بھی اسے ’’شاہی‘‘ سر پرستی حاصل ہے جو اردو کو آج تک حاصل نہ ہوسکی ہے۔
اس کے سالانہ میلے کو ’’بسنت‘‘ بھی کہتے ہیں۔ بسنت ہر علاقے اور شہر میں مختلف تاریخوں میں منائی جاتی ہے۔ اس روز خواتین و حضرات بسنتی رنگ کے کپڑے پہنتے ہیں. بچے بھی بسنت پورے ذوق شوق سے مناتے ہیں اسی وجہ سے اکثر بچے ’’بسنتے‘‘ ( شرارتی ) ہوتے جا رہے ہیں۔ اپنے موسم میں یہ روزانہ صبح، دوپہر، شام ڈاکٹری ہدایت کے مطابق اڑتا ہے۔ اس کو اڑانے کے لیے، زیادہ اونچا اڑانے کے لیے مناسب ہوا اور موسم کی ضرورت ہوتی ہے۔ تیز ہوا اور بارش میں پھلوں کی طرح گر کر خراب ہو جاتا ہے۔ اس کے اڑانے والوں میں زیادہ تر انسان ہی ہیں لیکن بجلی کے کھمبے اور درخت بھی انھیں ’’خود کار‘‘ طریقے سے اڑاتے ہیں اسی وجہ سے ہمارے ہاں درخت نیچے سے اوپر تک ’’رنگین‘‘ ہوتے ہیں۔ پتنگ اور اس کی ڈور کھمبوں اور تاروں میں الجھ کر واپڈا والوں کی روزی ’’حلال‘‘ کرتی ہے۔ پتنگ کو اڑانے والے اکثر پانچ سے پینتیس برس کے ’’بچے‘‘ ہوتے ہیں لیکن بسنت کے وقت ستر، اسی سالہ ’’بچے‘‘ بھی شامل ہوتے ہیں۔ اسے زیادہ تر پانچ سے اٹھارہ سال کے بچے اڑاتے ہیں جب کہ پچیس سال تک کے ’’بے روزگار‘‘ بچے چند روپے اڑا دیتے ہیں۔ پینتیس سال تک کے بچے اسے فروری، مارچ میں اڑاتے اور اس سے اوپر کا طبقہ صرف بسنت کے روز اڑاتا ہے۔
یہ مصنوعی پرندہ کہلاتا ہے اڑائے بغیر نہیں اڑتا۔ کچھ کھائے پیے بغیر زندہ رہتا ہے چوں کہ یہ خود کاغذ کا بنا ہوتا ہے اس لیے چند ’’کاغذ‘‘ ضرور کھا جاتا ہے جیسے نوٹ دو اسی رنگ ڈھنگ اور پسند کا خرید لو۔
باقی صفات کی طرح اس کے رنگ بھی عجیب ہوتے ہیں. سیاسی رنگ، معاشی رنگ، بسنتی رنگ، معاشرتی رنگ وغیرہ۔ غرض یہ کہ ہر رنگ میں اِنھیں رنگ کر عوام کی دولت سے ’’ہاتھ رنگے‘‘ جاتے ہیں۔ اگر آپ رنگوں کی تعداد معلوم کرنے کو بے چین ہیں تو ذرا تکلیف کیجیے کہ سات کو سات سے سات بار ضرب دے کر حاصل ضرب نکالیں، یوں کم از کم جواب تو ’’حق حلال‘‘ کا ہو گا۔
شکل و صورت کے لحاظ سے ان کی اکثریت مربع ہوتی ہے. یہ مربہ کھانے والا نہیں بنانے والا ہے۔ مستطیل، مثلث، تکون، متوازی الاضلاع، معین اور گول بھی ہوتے ہیں۔ حتٰی کہ اب تو انسانوں، جانوروں، پرندوں اور گاڑیوں کی شکل کے بھی دستیاب ہیں۔ یہ ساری کی ساری اشکال جیومیٹری کی ہیں اسی لیے تو طلبا میں جیومیٹری سیکھنے کا شوق بہت زیادہ ’’مفقود‘‘ ہے. ان کا خیال ہے چوں کہ انھیں اڑایا جاتا ہے اس لیے بنانا ’’سیکھنے‘‘ کی کیا ضرورت ہے۔ حالاں کہ ہماری نئی نسل انھیں نیک نیتی سے سیکھے اور سکھائے تو ’’اسلامیانِ عالم‘‘ کو دشمن طاقتوں سے ’’فضائی مقابلہ‘‘ میں یہ دن نہ دیکھنے پڑیں، جو دیکھنا پڑ رہے ہیں۔
جدید ایجادات کمپیوٹر، موبائل اور انٹرنیٹ نے انسانی طرز زندگی مکمل طور پر بدل دیا ہے. خصوصاً بچوں میں ان سے ’’خطر ناک‘‘ بدلاؤ آیا ہے لیکن شاید یہ انسان کی ’’بد قسمتی‘‘ اور پتنگ کی ’’خوش قسمتی‘‘ ہے کہ اس کی ’’عادت‘‘ دنیا سے ختم نہیں ہوئی۔ موبائل نے بچوں سے مطالعہ کی عادت چھڑوا لی لیکن پتنگ کی عادت شاید اسے بھی پسندہے اسی لیے اس سے ’’منع‘‘ نہیں کیا۔ یہ آج بھی پورے ’’جوش و جذبہ‘‘ سے جاری ہے۔
بچوں کو اسباق اس قدر ازبر یاد نہیں ہوتے جس قدر کہ وہ مختلف پتنگ بنانے کا طریقہ ذہن نشین رکھتے ہیں۔ پڑھنے لکھنے کا کام کرنے کو کہیں تو سر میں ’’گھڑوں پانی پڑ جاتا‘‘ ہے لیکن پتنگ بازی کے لیے ہردم، ہر لمحہ تیار اور مستعد۔ پڑھائی کے لیے گھنٹوں ٹال مٹول کرتے رہیں گے لیکن پتنگ چند منٹوں میں تیار کرکے اڑائیں گے۔ پھر خراب موسم، کڑی دھوپ اور صحت کا کچھ خیال تک نہ ہو گا۔ پورے انہماک، توجہ، محنت اور تندہی سے کام کریں گے مگر پڑھائی کہ جس کا دائمی فائدہ اور اجر ہے اس کے لیے سستی اور لاپروائی کا مظاہرہ کریں گے۔ تھکاوٹ ذہنی کا عذر چندمنٹ میں پیش کر دیں گے۔
پتنگ اڑانے کے لیے ’’خاص قسم‘‘ کا دھاگا استعمال ہوتا ہے جسے ڈور کہا جاتا ہے. اس میں شیشہ بھی استعمال کیا جاتا ہے تاکہ اپنے ہاتھ پاؤں اور دوسروں کی گردن جب کہ ماں باپ کی ’’ ناک‘‘ آسانی سے کٹ سکے۔ اب تو اس سے بھی خطرناک کام دھاتی ڈور کا ہے جو جلدی ٹوٹتی بھی نہیں۔ البتہ اس کے سامنے آنے والے کی ’’زندگی کی ڈور‘‘ ضرور ٹوٹ جاتی ہے۔ یہ دھاگا چلڈرن کائٹ ملز والے تیار کرتے ہیں۔ آپ شاید یہ سن کر حیران و ششدر ’’ نہ‘‘ ہوں کہ اس میں افسران سے لے کر مزدور تک سبھی ’’بچے‘‘ ہوتے ہیں۔ ان کے کیمیاوی انجینئر کو دھاگا تیار کرنے کا فارمولا زبانی یاد ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دھاگے کی تیاری کے وقت اسے بہت سے مراحل سے گزارا جاتا ہے تا کہ یہ ’’مضبوط ترین‘‘ ہو کر ملک و قوم کر ’’کمزورترین‘‘ کر دے اور اپنا آپ منوا سکے۔
میرا ایک دوست فحاشی و عریانی کے بڑھنے کا سبب اس ’’دھاگے‘‘ کو قرار دیتا ہے کیوں کہ بہت سا ’’اچھی نسل‘‘ کا دھاگا پتنگ بازی کی نذر ہو کر مہنگا ہو جاتا ہے جس وجہ سے خواتین کپڑے کم سے کم اور ان سلے پہننے لگی ہیں۔ یوں نگاہوں کے پردے کے ساتھ اب ’’ظاہری‘‘ پردہ بھی مفقود ہوتا جا رہا ہے۔
اکثر بڑے شہروں اور قصبوں میں پتنگ بازی کو آسان اور بے الزام جوا کے طور پر کھیلا جاتا ہے، اس کے تاریخ وار مقابلے ہوتے ہیں، شرطیں لگائی جاتی ہیں، انعامات دیے جاتے ہیں، جوشیلے اور ’’من چلے‘‘ فائرنگ کرتے ہیں، معصوم جانیں ضائع ہوتی ہیں پھر بھی قوم اس بات پر خوش ہے کہ ’’بہار کی آمد‘‘ کا جشن منا رہی ہے۔ کیا خوب جشن ہے کہ ’’موت‘‘ پر منایا جاتا ہے، قومی دولت لوٹنے اور سرمایہ ضائع ہونے پر منایا جاتا ہے۔ اگلی نسلوں کو یہ ’’سبق‘‘ دیا جاتا ہے کہ ’’اپنوں کی موت‘‘ پہ جشن منایا کرتے ہیں۔
اس کے انعامات و شرائط بھی روح فرسا اور رنج افزا ہیں۔ چھت سے گر کر اپنی ’’زمین‘‘ تک پہنچنے والے کو اول انعام دیا جاتا ہے۔ دوم آنے والا ٹانگیں یا بازو تڑوا کر پتنگ بازی اور جشنِ بہاراں کو ’’تا حیات‘‘ یاد رکھتا ہے کیوں کہ اس نے ایک دن کی ’’خوشی‘‘ منا کر عمر بھر کے لیے غموں سے ’’سمجھوتہ‘‘ کر نا ہوتا ہے۔ اول تو اس کے صرف دو انعام ہیں البتہ اگر کوئی تیسرا حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے عمر بھر کے لیے ’’دال روٹی‘‘ کی ’’ دعوت‘‘ کا خط لکھ دیا جاتا ہے۔ بعض کو ’’نقد‘‘ انعام بھی دیے جاتے ہیں جو اس جوئے کو جیت جاتا ہے وہ ڈاکٹر بن جاتا ہے کیوں کہ وہ میاں بیوی بچوں سمیت (ایم بی بی ایس کر کے) کسی تفریح کے لیے چلاجاتا ہے۔ اگر کوئی افسر اعلیٰ ہارے تو خالی آسامیوں کا ’’اشتہار‘‘ دے کر قوم سے رقم ’’پوری‘‘ کر لیتا ہے۔ وزیر، مشیر ہارے تو قومی خزانے سے ’’پورے‘‘ کرکے فلاح عوام کا دعویٰ اور نعرہ لگاتا رہتا ہے۔ غریب ہارے تو واقعی مار مار کے عجیب و غریب کر دیں گے کہ قبر اس کے ’’قریب‘‘ ہوجائے یا موت نصیب ہوجائے، اس کے بیوی بچوں کی حالت ’’عجیب‘‘ ہوجائے. زندہ رہے تو زخموں سے نزارو نحیف ہوجائے۔
بچے پتنگ کو کتنی زیادہ اہمیت دیتے ہیں، بیان سے باہر ہے مگر بیان تو کرنا پڑے گا۔ بعض بچے اس کو تعلیم، کھانے پینے، دین، ایمان حتٰی کہ جان سے بھی زیادہ اہمیت دیتے ہیں، جان پر ’’کھیل‘‘ جاتے ہیں۔ اس کی خاطر جان ’’وار‘‘ دیتے ہیں اور والدین کو زندہ مار دیتے ہیں۔ بچے اس کو پورے دھیان سے اور ٹکٹکی باندھے اڑاتے ہیں، آنکھ تک نہیں جھپکتے۔ اسی لیے گھروں کی چھتوں کو ’’پولو کا میدان‘‘ سمجھتے ہوئے منڈیر تک سے گزر کر ڈاکٹروں کی ’’آمدنی‘‘ اور والدین کی پریشانی میں اضافہ کرتے ہیں۔ شاید اسی لیے اکثر ڈاکٹر فکرِ مال و زر کے لیے ’’فکرِ بال‘‘ سے آزاد ہو جاتے ہیں۔
پتنگ ہوا میں اڑنے کی وجہ سے ’’ہوائی‘‘ مخلوق کہلاتا ہے۔ اس ہوائی مخلوق کو اڑانے کی وجہ سے بچے ’’ہوا سے باتیں‘‘ کرتے ہیں۔ ہوائی قلعے بناتے ہیں، عملاً کچھ نہیں کرتے اور کچھ ’’ہوائی مخلوق‘‘ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ جیومیٹری متشکل چیز اڑا اڑا کر بچے جیومیٹری سے دور بھاگتے ہیں۔ اس کے ’’مسائل‘‘ سے ’’خائف‘‘ ہو کر والدین کے مسائل میں ’’اضافہ‘‘ کرنے کے بعد خود بھی ’’مسائل‘‘ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پتنگ کی نسل پان اڑان والے بچے پان کھانے کے عادی بھی ہو جاتے ہیں اور دانت مضبوط کرتے کرتے منہ کا کینسر بھی کروا لیتے ہیں۔
آئیے! اب فوائد پر بھی ایک نظر ڈالیں کہ اس ’’بے فائدہ‘‘ کھیل کے کیا ’’فائدے‘‘ ہو سکتے ہیں؟
سرکاری نمائندوں کے بقول پتنگ بازی سے ’’افراطِ زر‘‘ پر کنٹرول حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے کیوں کہ جن کے پاس ’’زر‘‘ کی افراط ہے وہ پتنگ اڑانے کے شوق میں ’’بے تحاشا‘‘ اڑاتے ہیں یوں زائد روپیا پیسا خرچ ہو جاتا ہے اور افراطِ زر نہیں ہوتا۔ جیب میں اس کی ’’تپش و حِدت‘‘ کم ہو جاتی ہے جس سے ’’سینے کی جلن‘‘ کا مرض لاحق نہیں ہوتا۔ سنا ہے کہ بعض پرندوں کی نسلیں ’’معدوم‘‘ ہوتی جا رہی ہیں لیکن پتنگ بازی کی صورت میں ہمیں فضا میں ’’رنگ برنگے پرندے‘‘ اڑتے نظر آتے ہیں اور اس کمی کا احساس نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر ہدایت کرتے ہیں کہ اگر نظر تیز کرنا چاہو تو کسی ’’سبز‘‘ چیز کی طرف غور اور تسلسل سے دیکھو۔ یوں اس ’’مشقِ نظر‘‘ پر عمل کرنے کے لیے سبزہ ’’قریب‘‘ نہ ملنے کی وجہ سے سبزپتنگ سے کام لیا جاسکتا ہے۔ مگر اس میں ایک خطرہ ہے کہ پتنگ سے نظر ہٹ کر کسی ’’اور‘‘ پر پڑ گئی تو آپ کو ’’نظر‘‘ ہو جائے گی اور آپ کا مال، جان، عزت دوسروں کی ’’نذر‘‘ ہو جائے گی۔ کچھ لوگوں کو ’’لڑنے مرنے، مرنے مارنے‘‘ کا بہت شوق ہوتا ہے. وہ ’’آ پڑوسن پھر لڑیں‘‘ کی مثل پر دل و جان سے ’’عمل‘‘ کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو لڑائی کے لیے بہانہ چاہیے ہوتا ہے۔ پتنگ بازی کا کھیل ان کو یہ بہانہ ’’مفت ‘‘عطا کرتا ہے۔ یوں اچھے بھلے حسنِ سلوک اور محبت وآشتی سے رہنے والے ہمسایے حق ہمسائیگی کو پسِ پشت ڈال کر باہم ’’دست و گریباں‘‘ ہو جاتے ہیں. بیوی بچے ان کے پریشان ہو جاتے ہیں، ہنستے چہرے ’’ویران‘‘ ہو جاتے ہیں، نہ جانے کیا کیا نقصان ہو جاتے ہیں، زندگی ختم کرنے کے ’’مر حلے‘‘ آسان ہو جاتے ہیں، گھر پھر جنگ کے میدان ہو جاتے ہیں۔
ہمارے ملک میں شرح خواندگی بہت کم ہے اور یہ بھی پتنگ کے ’’کارنامے‘‘ ہیں۔ بچے مشہور پتنگ باز بننے کے چکر میں پتنگ کے کورے کاغذ کی ’’طرح‘‘ ہو جاتے ہیں۔ اس کا دوسرا ’’بڑا‘‘ کارنامہ یہ بھی منظرِ عام پر آ چکا ہے کہ کاغذ مہنگا ہو رہا ہے جس سے ملک کا تو پتا نہیں البتہ مہنگائی دن دگنی رات چوگنی ’’ترقی‘‘ کر رہی ہے۔ غریب بچے، جن کے دل میں پڑھنے کے طوفان امڈ رہے ہوتے ہیں، شوق کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہوتا ہے۔ پڑھنا تو دور کی بات کتابیں اور کاپیاں خریدنے کی سکت بھی نہیں رکھتے۔ اس پر ’’سونے پر سہاگے‘‘ کا کام ہمارے نظامِ تعلیم اور امتحان نے شروع کیا ہواہے۔
ورزش اور کھیل صحت مند دماغ کے لیے ضروری ہیں۔ پہلے سکولوں میں بچوں کو کھیل کے طور پر اور تعلیمی میدان میں ’’ دوڑنا‘‘ (آگے بڑھنا) سکھایا جاتا تھا لیکن اب وہ خود بخود پتنگ ’’کے لیے‘‘ دوڑنا سیکھتے ہیں اور تیز رفتاری کی مثالیں قائم کر کے زندگی کی دوڑ ’’جیت‘‘ جاتے ہیں لیکن ملک و معاشرہ ترقی کی دوڑ میں ’’ ہار‘‘ جاتا ہے۔
پتنگ اور واپڈا کا ’’کتے بلی والا بیر‘‘ ہے. ادھر پوری تندہی اور کوشش سے برقی رو ’’بحال‘‘ کی جاتی ہے جب کہ پتنگ بازوں کا کارنامہ ’’عظیم‘‘ اس کو پھر ’’بے حال‘‘ کر دیتا ہے۔ قیمتی سامان کے ساتھ ساتھ قیمتی جانیں بھی ضائع جاتی ہیں۔ ’’پتنگ حمایت جماعت‘‘ کے سربراہ کا کہنا ہے کہ پتنگ کا عوام کو بہت فائدہ ہے۔ وہ یوں کہ فیوز بلب جن کو بے کار سمجھ کر پھینک دیا جاتا تھا، بچے اور بوڑھے ان سے زخمی ہو تے تھے، لیکن اب کوئی بھی فیوز بلب کو پھینکنے کا کام نہیں کرتا بل کہ ’’انڈوں‘‘ کی طرح سنبھال سنبھال کر رکھتا ہے. نرم و گداز جگہوں پر ان کی ’’دیکھ بھال‘‘ کی جاتی ہے کہ موسم بسنت میں کام آئیں گے۔
پتنگ کا سب سے بڑا فائد غریبوں اور فقیروں کو ہو رہا ہے یوں کہ لوگ اب ’’راہِ خدا‘‘ میں غریب، فقیر کو روپے پیسے دینے کے بجائے راہِ ’’بے جا‘‘ میں اڑا دیتے ہیں اور یوں غریبوں، فقیروں کو روپے سنبھالنے کی تکلیف نہیں اٹھانی پڑتی۔ سچ تو یہ ہے کہ غریب کو دیتے ہوئے موت نظر آتی ہے، اڑاتے ہوئے ’’موج‘‘ نظر آتی ہے۔
مجھے ایک آدمی نے بنظر ’’غیر‘‘ دیکھا اور کہا کہ تو پتنگ اڑانے والوں کا ایسے ہی مذاق اڑاتا رہتا ہے اس کے تو بہت سے مذہبی فوائد بھی ہیں۔ میں نے کہاہاں بتاؤ تو ذرا! وہ فردِ عذر تراش یوں گویا ہوا: جب ہمارا پتنگ مقابلے پر ہوتا ہے تو چشم بہ فلک دعا گو ہوتے ہیں: یا اللہ! میرا پتنگ نہ کٹے، یا اللہ! یہ مقابلہ میں ہی جیتوں۔ بالفرض ہار گئے تو بھی کہا اللہ کی طرف سے ہماری قسمت میں ’’ہار‘‘ لکھی تھی. ہمارے ہارنے میں بھی اللہ کی کوئی ’’حکمت ‘‘ ہے۔ خدانخواستہ ٹکٹکی باندھے دیکھتے دیکھتے گر گئے تو بھی درد سے کراہتے، زخم سہلاتے کہا، ہائے اللہ! میں مر گیا. اوہ! خدایا یہ کیا ہو گیا، ہائے امی جی!، ارے ابا! میں تو ویسے وہاں سے گزر رہا تھا، یا اللہ! میں کب ٹھیک ہوں گا؟۔ پتنگ بازی کے مزوں کے ساتھ اللہ اور والدین کی ’’یاد‘‘ ضرور آ جاتی ہے۔
فوائد کے زمرے میں یہ بات سب سے موثر و مقدم ہے کہ کروڑوں روپے ’’اُڑا‘‘ کر ہم ’’خشک حالی‘‘ کی طرف تیزی سے گامزن ہیں، وہ بھی بڑے فخر اور ناز کے ساتھ۔۔۔!
