چولستان سے بلتستان کا سفر – دھرمیندر کمار آوارہ

قدرت کا ہر منظر کیمرے میں عکس بند کیا جائے یا آنکھوں میں، یہ ممکن نہیں. خوب صورت اور دل نشیں نظارے دیکھنے سے نہ تو دل بھرتا اور نہ ہی ایک پل کے لیے آنکھ بند کی جا سکتی ہے. یہ پہاڑ، ندیاں، جھرنے، کچی اور پکی راہیں انسان کو قدرت کے قریب تر لے جاتی ہیں۔ ایک طرف فلک بوس پہاڑ سبزے کا لامتناہی لباس زیب تن کیے ہوئے تو دوسری طرف سرد ہوا دل کو تسکین پہنچانے کے بعد روح کو جھنجوڑ رہی تھی کہ جب ہمارا قافلہ لاہور سے رات دس بجے روانہ ہوا. دل میں ایک عجب سی بے قراری تھی کہ کل کیا ہوگا؟ وہاں کا رہن سہن، وہاں کے لوگ اور ماحول کیسا ہوگا؟ قدرت کا منقش کس طرح سے دھنک کی طرح بکھرا ہوگا؟ اور جب ہم نے دورانِ سفر صبح کے وقت، بس میں آنکھ کھولی تو ہر طرف ایک الگ منظر نظر آیا. ہرے رنگ کے سیکٹروں اقسام کے پیڑ، پودے اور درخت ہمارے قافلے کا استقبال کررہے تھے. سبز چادر سے ڈھکے ہوئے پہاڑ، نیلا آسمان اور سفید بادل جو انسان کے تن پر پڑے مِیل کو دھورہے تھے، جِسے برسوں سے ہم رنگین دنیا میں رہ کر بھی صاف نہیں کرسکے۔
ایک طرف جھرنوں اور ندیوں میں بہتا پانی روح کو ایک عجیب سی رونق و تازگی بخشتا ہے تو دوسری اُور پہاڑوں پر موجود پیڑ پودے زندگی کا حقیقی مفہوم پیش کرتے ہیں. یہ سب ایک دوسرے سے باتیں کررہے ہوتے ہیں لیکن ان کی یہ گفتگو ہمارے لیے ایک بہترین وظیفہ ہے جو بغیر کسی تفریق اور امتیاز کے ساتھ ایک دوسرے کی بات سن رہے ہیں. بلند و بالا پہاڑوں پر اپنا مسکن بنائے ہوئے یہ درخت پیغام دیتے ہیں کہ ان چٹانوں کے بغیر ہم ادھورے ہیں اور یہ دھرتی ہمارے بغیر بے رونق ہے۔ ایک طرف انسان، انسان سے محبت اور اچھائی کا طلب گار ہے لیکن ایسا بہت کم دیکھنے میں آتا کہ کوئی ہماری خوشی سے خوش ہوا ہو. ایک انسان دوسرے انسان سے بڑا اور مال دار بننا چاہتا ہے لیکن کبھی یہ نہیں سوچتے کہ کیوں نہ ہم خوب صورت درخت، پہاڑ، جھرنے اور ندیوں کا روپ ہوتے۔ ان وادیوں میں کِھلنے والے پھول پھل ہوتے لیکن قدرت کی اس دکان میں انسان کے لیے بس ایک ہی پیغام ہے کہ انسان، انسان کی قدر کو سمجھے اور آپس میں خلقِ خدا سے یک جا ہو کر رہے کیوں کہ اس میں ہی سب کی بھلائی ہے۔ مادہ پرستی کی اس دنیا میں جب ہم اپنی ماں دھرتی سے دور ہو رہے ہوتے ہیں تو اس میں دو طرح کے سبق آموز پیغام پوشیدہ ہوتے ہیں؛ ایک تو آپ کو گھر یاد آتا ہے، دوسری طرف ہم پر قدرتی مناظر کا سحر طاری ہوتا ہے جو ان نظاروں سے دور نہیں ہونے دیتا۔
جیسا ان وادیوں کا ماحول ہے ویسا ہی ان کوہساروں اور کوہستانی باشندوں کا طور ہے. جب سفر کے دوران یہ انسان شہر کے آدمی کو دیکھتے ہیں تو بےغرض مسکراتے ہوئے ہاتھ اٹھاتے اور سلام کرتے ہیں تو ہم شہر کی مطلب پرست دنیا کو بھول جاتے ہیں. سڑک پر ہماری گاڑیوں کا قافلہ جب بھی کسی ایک وادی سے نکل کر دوسرے وادی میں داخل ہوتا تو ہر دفعہ ایک نئی کائنات کا حسن و جمال ظاہر ہوتا جیسے جنت کے دروازے سے نکل کر پھر کسی دل کش مقام پر آگئے ہوں۔ ان وادیوں میں کہیں کچے تو کہیں پکے گھر ایک دوسرے سے ہاتھ سے ہاتھ ملائے رقص کررہے ہوں جو ہر ایک کی بے چین روح کو اپنا ٹھکانہ دینے میں بے چین لگ رہے تھے۔ یہاں کے لوگوں کی قناعت پسندی اور سادگی دیکھ کر ہمارے سفر کی تمام تر تھکاوٹ اور اکتاہٹ کا جمود جاتا ہے. یہاں کے باغات اور ان میں رنگ برنگے رس بھرے پھلوں کا نشہ سر چڑھ کر بولتا ہے۔ اس خطے کے تازہ پھل جیسے چیری اور خوبانی کو جب توڑ کر کھائیں تو یقیناً آپ جنت کے سے پھلوں کا لطف اٹھائیں گے. اس طرح پہاڑوں کی دامن سے نکلتا پانی ہماری برسوں کی پیاس بجھانے کو بے قرار رہتا ہے۔
اس سفر کے چند لمحات کو یادگار بنانے کے لیے اپنے الفاظ میں بیان کرنے بے حد ضروری ہے، جس کی میں نے کچھ کوشش کی ہے:

یہ نظم اس سفر کے نام
سماں باندھا ہوا ہے پہاڑوں، ندیوں اور ہری بھری چراگاہوں نے
دل کو بہلانے کے لیے قدرت نے اک راز رکھا ہوا ہے ان حسیں وادیوں میں
جیسے کوئی بھولے بھٹکے مسافروں کا قافلہ آگیا ہوں جنت میں
ہر سُو دِکھائی دیتا ہے عکس اُسی خالق کا، جیسے کھل گیا ہو راستہ سُرگ کا
ترنم میں بہتے ندی نالے، ہواؤں نے ڈالے ان میں سُر نرالے
ہر طرف پہاڑ ہی پہاڑ کہیں وادی تو کہیں بیاباں چمن اور اُجاڑ
سرد ہوا کے جھونکے اک پل کے لیے زمیں پر، اک پل کے لیے آسمان پر
مسافروں کا کارواں ہیں رواں دواں، کوئی یہاں تو کوئی وہاں ہے اٹکا ہوا
شکم سیری کے لیے ہیں بے شمار میوے رکھے ہیں مالکِ کل کائنات نے
کہیں دریا ہے آگے کہیں جھیل ہے پیچھے، کہیں بادل ہے نیچے کہیں ہم ہیں ان سے اوپر
سو رنگ بھرے ہیں ان کوہساروں میں جیسے بھول گئی ہو قوس قزح گھر اپنا
دن ہو تو زمیں پر کھلتے ہیں تارے بے شمار، آسمان میں رات سجتی ہے جیسے ہو کوئی دلہن تیار
جنت سے بڑھ کر کہیں خدا نے عطا کیا ہے اپنے ہی گھر کا نظارہ
یہاں پہنچ کر ہوا جب میں ہم کلام، قدرت نے کہا کہاں کھو گیا اے انسان
مجھے دیکھتا ہے کیا؟ عبادت خانوں میں روزِ ازل سے لڑ رہا ہے مے خانوں میں
لگایا ہے اس نے ہر جگہ اپنا ہی میلہ، کہیں ریگستان کہیں کا سلسلہ
امید باندھوں، ارادہ کرلو سفر زندگی ہے، سفر ہی بندگی، ہے سفر آوارگی سفر ہر خوشی ہے

ہمارا کاروان ناران سے ہوتا ہوا جب بابوسر ٹاپ پر کچھ پل کے لیے سستانے کو رکا تو ریشم کی بارش ہونا شروع ہوگئی اور دیکھتے ہیں کہ ہر طرف سفیدی کی لمبی چاردر چھا گئی ہو جیسے قدرت نے شرماتے ہوئے پردہ کرلیا ہو۔
اس کارون کے روحِ رواں سپیئر کالج واپڈ ٹاؤن، لاہور کے ڈائریکٹر دل شیر علی صاحب تھے، جن کی محبت اور شفقت مجھے چولستان سے بلتستان کھینچ لائی تھی. جنہوں نے مجھے اپنے ساتھ اس سفر کا حصہ بننے کا اعزاز عطا کیا۔ میرا اس سفر میں سوائے ان کے کوئی جاننے والا نہ تھا لیکن ان پانچ دنوں کے سفر میں احباب کی فہرست میں دس سے بھی زائد دوستوں کا اضافہ ہوا. یہ سب دل شیر بھائی کی قربت اور شفقت کا نتیجہ ہے جو اس طرح کے سفر میں ہمیں بھی شامل ہونے کا اعزاز بخشا۔ کسی قسم کی کوئی تفریق نہیں تھی، جس کو بھی دیکھا مسکراتے اور سلام کرتے ہوئے پایا. آج جہاں ہم ڈیجیٹل دنیا میں جی رہے ہیں، اس سے دور ہٹ کر جب ان وادیوں میں قدم رکھتے ہی تو شہر کی بھاگ دوڑ سے دستبردار ہوکر اپنے اور قدرت سے بات کرنے کو دل چاہتا ہے اور قدرت آپ کے دل میں اٹھنے والے ہر سوال کا جواب اشارہ میں پیش کررہی ہوتی ہے. بس آپ کو اپنے اندر چھائے ہوئے غبار کو ختم کرنے کی دیر ہے. آپ خود کو ہوا کا ایک جھونکا محسوس کریں گے، جیسے آپ آسمان میں اڑ رہے ہوں۔ آپ دنیا کا سفر کشتی یا جہاز میں سوار ہوکر کرسکتے ہیں اور کسی مہنگے ہوٹل میں رات گزار سکتے ہیں لیکن جو لطف اور سرور آپ کو سادہ سفر کرنے میں ملتا ہے، اس کا تصور خواب میں بھی نہیں کیا جا سکتا. میرا ذاتی تجربہ ہے کہ زندگی میں رشتے اور سفر میں سامان کم ہوں تو دونوں آپ کو خوب صورت لگیں گے، خواہ اس میں کتنی ہی کٹھنائی کیوں نہ آئے اور یہی لمحے زندگی کو جینے کے لیے ہمیشہ تازہ دم رکھتے ہیں، کہ یقیناً جن کو یاد کرکے دل کو بہلایا جاسکتا ہے۔ اس کارواں میں ہم نے لاہور سے لے کر پاک چین سنگم تک کا سفر سات دن میں طے کیا. جہاں ایک طرف ہمیں تھکاوٹ ہوتی وہاں دوسری طرف قدرتی سحر سے محظوظ ہوتے اور تھکاوٹ بھول جاتے۔ اس کاروانِ فطرت میں سپیرئیر کالج کے طلباء اور کچھ اپنے احباب کے ساتھ سیر کو نکلے تھے۔

اس سفر کے آخری دو دنوں کو مزید خوش گوار بنانے کے لیے کالج کے طلبہ وطالبات کے اعزاز میں الوداعی تقریب کا بھی اہتمام کیا گیا جنہوں نے اس مارد علمی سے دوسالہ تعلیم کا دورانیہ مکمل کیا تھا. اس خاص تقریب میں طلبہ و طالبات اور اساتذہ نے مل کر کیک کاٹا اور سب میں یادگار اسناد تقسیم کی گئیں۔
ایک بار پھر اس طرح کی خوب صورت تقریب کو کیمرے میں قید کرنا ممکن نہ تھا. اس طرح کی وادی میں اور اس طرح کے کارواں میں ان سب کو دیکھ کر جو دلی خوش ملتی ہے، اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ تقریب کے اختتام پر مجھے اپنی دھرتی کا ثقافتی تحفہ اس کارواں کے روح رواں ڈائریکٹر سپیئر کالج دل شیر علی بھلر اور ان کی شریک حیات پرنسپل موتیا امبر صاحبہ سپیئر کالج گرلز کیمپس، شاہد رضا پرنسپل سپیئر کالج بوائز کیمپس اور ان کے مہمانان کو چولستان اور سندھ کی ثقافتی چادر اجرک پیش کرنے کا موقع ملا جو میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں۔

آخر میں ہم نے وادی ہنزہ کے کرم آباد بازار، التت اور بلتت فورٹس، ساتھ ساتھ چیری، اخروٹ اور خوبانی کے باغات سے الوداعی ملاقات کی اور شام کو واپس اپنے مسکن کی طرف روانہ ہوئے۔ سفر کی اس جستجو میں ہم نے بالا کوٹ، وادی ناران، کاغان، بابو سر ٹاپ، لولو سر جھیل، وادی ہنزہ، عطا آباد جھیل، پاسو کون و گلیشیئرز، سوست کا بازار اور آخری مقام پاک چین سنگم کو عکس بند کیا. لیکن کیا کہتے ہیں کہ پیاس کا صحرا کبھی بھی تر نہیں ہوتا اور یہی ہماری حالت تھی. اگر کچھ اور وقت ہوتا تو سفر جاری رکھتے۔ ہمارے اس قافلے میں چودھری ہارون محمد صالح، کامران خان، گلاب خان، جنید شاہ صاحب، کامِل شاہ، حاجی اورنگزیب بھلر، محمدسعید، محمد ظفر، شعیب باجوہ اور محمد سرفراز بیگ شامل تھے. ان احباب کی وجہ سے اس کاروان کی رونق بڑھ گئی۔ ہنسی مذاق اور جگت بازی میں یہ سفر کب شروع ہوا اور کب ختم، پتا ہی نہیں چلا۔
میرے اس سفر کو اور میری اس خواہش کو حقیقت کا رنگ دینے میں دل شیر علی صاحب کا مکمل ساتھ رہا جن کی وجہ سے میں قدرت کے یہ نظارے دیکھ سکا. ان کے لیے اور تو کچھ نہیں بس اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ آپ کی مہمان نوازی اور فراخ دلی ہماری روح میں اتر گئی ہے. جس طرح آپ محبت اور پیار بانٹ رہے ہیں، خدا آپ کی خدمت اور عقیدت کو قبول فرمائے کہ آپ یوں ہی اپنی نظرِ کرم خلقِ خدا پر بنائے رکھیں. آخر میں اس ناچیز کی طرف سے ان کی نذر یہ شعر:
مولا علی کا علم بردار ہے دل شیر
اپنے احساس کا اظہار ہے دل شیر
رکھتا ہے دل میں محبت کا سمندر
دل والوں کا قدردان ہے دل شیر

چولستان سے بلتستان کا سفر – دھرمیندر کمار آوارہ” ایک تبصرہ

تبصرے بند ہیں