ڈاکٹر ادریس احمد آفتاب کی کھوج – شیخ فرید

ڈاکٹر ادریس احمد آفتاب کے عمیق تر علمی مشاہدے اور اعلٰی ترین ادبی مطالعے نے اُنہیں کھوجی بنا دیا. پھر اُن کی جستجو، لگن، رغبت، انہماکی، لگاؤ اور دُھن ایسا ادب لکھنے پر اُکسایا کہ “مشرق کا موتی، حوروں کا مسکن‘‘ جیسی کتاب تخلیق کر ڈالی، جسے پروفیسر اکبر خان اکبر کہنہ مشق اور صاحبِ طرز ادیب قدرت اللہ شہاب کی کتاب ”شہاب نامہ‘‘ کے بعد دوسری بہترین کتاب قرار دیا اور پھر اِس کی تائید بریگیڈئر خالد مختار فارانی نے بھی کی۔
ڈاکٹر صاحب نے مذکورہ کتاب سے قبل ”فرشتے کی ایف، آئی، آر‘‘ تصنیف کر کے اپنا نام اچھے لکھاریوں کی فہرست میں درج کروا چکے ہیں۔ جھنوں نے ”فرشتے کی ایف، آئی، آر‘‘ کا مطالعہ کیا ہے وہ بہتر جانتے ہیں کہ ڈاکٹر ادریس احمد آفتاب کو اپنے الفاظ اور جملوں کی گرفت پر کس قدر دسترس حاصل ہے.
حرف بہ حرف اُن کے قلم کی ذرا سی جنبش پر اُن کے خیال کی نُدرت، نِگہت، فصیلت اور شگفتگی کا جوہر صفحہ قرطاس پر یوں بکھیر دیتا ہے جسے حکم عدولی کا اُن میں یارانہ ہو اور نہ تاب و سکت کی جرآت کا حوصلہ کر پاتے ہوں۔ میں یہ سمجھ پایا ہوں کہ یہی رشحاتِ قلم کی جولانیاں ہیں جو ڈاکٹر ادریس احمد آفتاب کو دوسرے ادباء سے مہ صذف ممتاز کرتی ہیں بلکہ اُنھیں ایک بہترین لکھاری کی سندِ بھی پیش کرتی ہے جس کے صرف وہ ہی مستحق ٹھہرائے جا سکتے ہیں۔
”مشرق کا موتی، حُوروں کا مسکن‘‘ تک میری رسائی میرے دوست شاعر، افسانہ نگار اور کالم نویس اکبر خان اکبر کی مرہونِ منت ہے۔ اُن کا شکریہ میں بعد میں ادا کروں گا، پہلے کتاب پر خامہ فرسائی کی رسم ادا ہو جائے تو بہتر ہے.
ڈاکٹر ادریس احمد آفتاب کی کتاب بیک وقت ادب کی کئی اصناف کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور قاری کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے ایک ساتھ کہانی، شاعری، افسانے اور سفر نامے کی لذتوں سے آشنا ہو کر اپنے آپ کو کبھی شام کی مقدس وادیوں میں گھومتا پاتا ہے، کبھی اُسے دجلہ کی فضائیں لبھاتی ہیں تو کبھی قاری خود کو مصنف کے ساتھ دہلی کے گلی کوچوں کی سیر کے مزے لیتا، گھومتا، پھرتا اور مٹرگشتی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے خیال و خواب کی وادی میں کھو جاتا ہے۔
ڈاکٹر ادریس احمد آفتاب نے کتاب لکھتے سمے لفظوں کی بُنت کاری کا جو اسلوب اختیار کیا ہے وہ بڑا جداگانہ اور بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ مصنف کو ایک ساتھ ادب کی مختلف اصناف پر کماحقہُ نہ صرف عبور ہے بلکہ وہ اِن ادبی صنفِ عالیہ کو خوب برتنا بھی جانتے ہیں۔ اگر ہم سفر نامے کی بات کریں تو سفرانسانی زندگی کو سنوارنے اور مرتب کرنے کی کوشش کا ایک سلسلہ ہے اور سفرناموں کے ذریعہ دوسری تہذیبوں سے متعارف ہوا جاتا ہے. تاریخ اور جغرافیہ کے نئے انکشافات ہوتے ہیں، معلوماتی ادب کے لیے سفر نامے بہترین ذریعہ ہیں۔ اردو میں سفرناموں کی تاریخ تو مختصر ہے تاہم عمدہ سفر ناموں کی روایت کافی مضبوط ہے. کتاب میں سفر نامے کی مختصر تاریخ بیان کی ہے. سفر نامے کا فن، ہندوستان سے متعلق قدیم سفر نامے، حج نامے، اردو کا پہلا سفر نامہ نگار، دیگر قدیم سفر نامے اور جدید دور کے سفر نامے، جیسے موضوعات کو تاریخی تناظر میں پیش کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر ادریس احمد آفتاب نے بھی کی اپنی کتاب میں اِنہی بہلوؤں کو اُجاگر کیا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے کہانی میں رومانوی اور افسانوی رنگوں کی آمیزش سے اُسے دو آشتہ کر دیا ہے. پھر سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ شاعری کے تڑکوں سے ادب کا جو سواد قاری کے دہن و دماغ میں بسایا ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔
”ادب میں الفاظ کی ترتیب، افکار اور احساسات کا اظہار اس طرح کیا جاتا ہے کہ پڑھنے اور سننے والے میں مسرت کا احساس پیدا ہو‘‘، تاہم سادہ الفاظ میں ہم ادب کو آرٹ کی ایک شاخ اور فنِ لطیف بھی کہہ سکتے ہیں، جو نثر اور شاعری پر مشتمل ہوتا ہے. افسانوی ادب یا فکشن، نثری قصے کی وہ قسم ہے، جس میں تہہ داری، جمالیات اور اعلٰی ادب کے مخصوص فن اور تکنیک کو ملحوظ رکھا گیا ہو۔ اس کو عموماً چار اصناف میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ زمانی اعتبار سے افسانوی ادب کے ارتقا کی یہی ترتیب بنتی ہے، ڈراما/ ڈرامہ، قصہ بیان کرنے کی قدیم ترین صنف میں سے ایک ہے.
ڈاکٹر ادریس احمد آفتاب نے اپنی کتاب میں ادب کے بانکپن کو نئی طرح جاویداں اسلوب دے کر گویا بحرِ ادب کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ ”مشرق کا موتی، حُوروں کا مسکن‘‘ 14 ابواب پر مشتمل ہے جن میں سفر نامے تمام تر خوبیوں کے لوازم کے ساتھ ساتھ صحتِ عامہ کے مسائل پر مبنی مضامین کو بھی یک جا کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے سگریٹ اور چائے کے رسیا و شوقین افراد کے لیے بہت عمدہ تحریریں کتابیں شامل کر کے کتاب کی اہمیت و افادیت کو دوچند کر دیا ہے اور یہی اِس کتاب کی خوب صورتی ہے۔
اب وہ بات جو میں نے تمہید باندھتے لکھی تھی کہ اکبر خان اکبر کا شکریہ اختتامی پیرائے میں کروں گا تو واقعی اکبر خان میرے دوست نہ ہوتے تو زیرِ نظر کتاب مجھ تک نہ پہنچتی، اِس لیے پروفیسر اکبر صاحب کا ایک بار پھر شکر گذار ہوں کہ اُن کی محبت کے طفیل اتنی اچھی کتاب پڑھنے کو ملی.