نوجوان شاعرہ، اینی ملک کا پہلا مجموعہ کلام ”اے کاش‘‘ – سید فیاض الحسن

کسی کے بھی خلوص کو پرکھنے کا پیمانہ تا حال ایجاد نہ ہوسکا، مگر باہمی عزت و احترام اور احساس اس پیمانے کی جگہ لے سکتا ہے. اس حقیقت سے انکار نا ممکن ہے کہ مجھے کوئی عزت بخشے اور میں اسے احترام سے نہ نوازوں. جب بذریعہ ڈاک ”اے کاش‘‘ میرے ہاتھوں میں آئی تو سیالکوٹ میں پیدا ہونے والی ایم ایس انگلش لینگوسٹکس کی ہونہار طالبہ، ڈپریشن، ریسرچ پر بے شمار کانفرنس میں شرکت کرنے والی، انگلش اُردو شاعری پڑھنے کی شوقین، آگے بڑھنے کے لیے کوشاں رہنے والی، شاعر مشرق علامہ اقبال کے شہر میں ادب و علم کی خادمہ اور علامہ اقبال کو روحانی استاد کا درجہ دینے والی، خلوص کی امین، میری بیٹی کی مانند، عالیہ المعروف عینی ملک کی کتاب کا پر خلوص تحفہ ملا تو بے اختیار قلم خلوص و سچائی کی روشنائی کو قرطاس پر بکھیرنے لگا. یہاں یہ امر قابلِ ستائش ہے کہ عینی ملک نے سعادت مندی کا اظہارِ کرتے ہوئے جس احترام کے لائق سمجھا وہ ناقابل تحریر ہے مگر چند لفظوں کی بے ترتیب لڑی پیش کرنا بھی لازمی امر تو ہے ہی مگر عزت و احترام کو پرکھنے کا پیمانہ بھی ہے.
”اے کاش‘‘ عینی ملک کے، طویل و مختصر 71 نظموں کے مجموعے میں جمالیات کے حسن کا اظہار جس تواتر کے ساتھ آزاد شاعری میں قافیہ، ردیف، وزن کی جھنجھٹ سے آزاد ہو کر کیا ہے وہ ایک طالب علم کی عمر سے بھی کہیں زیادہ بڑھ کر ہے اور وہ بھی ایسے دور میں جب نوجوان سائنسی ترقی کے حصار میں مقید ہو کر کتابوں سے دور نظر آرہے ہوں. ایک ہونہار طالبہ کی کی جانے والی یہ کاوش اپنا مقام بہت بلند رکھتی ہے. عینی ملک،کی کوشش ”اے کاش‘‘ میں باالخصوص بابا جانی، خاموش آنسو، میں اور چاند، سچی باتیں، در گذر، موتیا کے پھول، خاموشی، استاد، ہم عمر، ایک فوجی جوان کے نام ماں کا پیغام، اور شہید بیٹے کا ماں کو پیغام، کے علاوہ اصول چاہت، حسن اور محبت، یارم کے جنم دن کے موقع پر، خود غرضی، خود کلامی، اے زندگی، عجیب لوگ، اداس دل، خود سے ملنا چاہتی ہوں، امیدِ سحر، پاگل لڑکی، خدمتِ خلق، رات کے آخری پہر، دسمبر کی ایک رات، اے زندگی اداس ہے شکر گزاری اور اے کاش میں… بچپن سے مطالعہ کا شوق و جنون نے بارہ سال کی عمر سے جس راہ پر گامزن کیا وہ آج سب کے سامنے ”اے کاش‘‘ کی شکل میں نظر آرہا ہے. عینی ملک یقنناً اگلے مرحلوں میں قدیم شاعری کو جدید میں اور بہترین انداز میں آوازِدل کا اظہار کرنے کی صلاحیتوں سے مالامال نظر آرہی ہیں کیوں کہ ان کی حساسیت اور تخیل اس بات کی غمازی کررہا ہے کہ تہذیبی، اخلاقی، قدروں سے دور نوجوانوں کے لیے ایک مشعلِ راہ بھی ہے. عینی ملک کی دیگر نظموں کو پڑھنے کے بعد اس کی گہرائیوں میں پہچنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے کیوں کہ نوجوان شاعرات کے کلام بھی نظر سے گزرے ہیں جن میں شاعری کی مقبول صنف غزل ہر ہی شاعرہ توجہ دیتی ہیں. مگر اس کے بر عکس عینی کی کاوشیں جداگانہ حثیت و انفرادی مقام رکھتی ہیں، جس میں ان کا تخیل جذبہ و احساس کی شکل، آزاد شاعری کی صورت میں موجود ہے جو کہ ایک طالب علم کے لیے بہت بڑا اعزاز بھی ہے. یوں تو زندگی میں بے شمار اعزازات ملے ہوں گے مگر کتاب کی اشاعت قابلِ ذکر و فخریہ کارنامہ ہے. بقول عینی ملک:
اپنے جھولے سے نکل کر چھت کو چھونے کی خواہش تیری
آگے، کبھی پیچھے، اور کبھی دائیں کبھی بائیں،
اپنے دل سے آشنا کردوں،
میرے دل کی بات نہیں،
اپنے سارے دکھ کسی سے کہہ دوں،
یہ میرے دل کی بات نہیں،
کچھ لوگ ملے رستے میں اپنے سے لگے،
مگر وہ بھی سرِ راہ چھوڑ گئے…

صرف یہ ہی نہیں عینی ملک کا حوصلہ تو دیکھیے، کیا خوب صورت انداز میں پیغام دیا ہے کہ:
ناکام نہ ہو، نادم نہ ہو، ہمت کر آگے دیکھ،
اک نئی امیدِ سحر منتظر ہے تیری یہاں
خدمتِ خلق میں گزارا ہوا جاتا نہیں لمحہ کوئی ضائع
دکھ کے لمحوں میں ضرورت ہوتی ہے اکثر دعاؤں کی
تیری یاد کا گھنا سایہ
میرے چاروں اطراف
اک حصار کیے ہوئے ہے
اور جانے کب سے
تیری یاد اور میری آنکھیں
اک دوسرے کے گلے لگ کر رو رہی ہیں.