ممتاز صحافی، شاعر اور ادیب شیخ فرید کی ”قلم کہانی‘‘- محمد اکبر خان اکبر

بسا اوقات ایسے افراد سے ملنے کا موقع ملتا ہے جو ایک ہی وقت میں کئی محاذوں پر سرگرم عمل ہوتے ہیں. ان کی سرگرمیوں کو دیکھ کر ایسا لگنے لگتا ہے کہ جیسے ان شخصیات کے وقت میں برکت کی کثرت ہے تبھی تو وہ تخلیقی طور پر اس قدر متحرک ہیں. شیخ فرید بھی اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں. وہ بیک وقت افسانہ نگار، صحافی، شاعر، مضمون نگار اور ادبِ اطفال میں ممتاز حیثیت کے حامل ہیں.
ان کی حالیہ منظرِ عام پر آنے والی تصنیف ”قلم کہانی‘‘ ان کے تحریر کردہ کالموں کا مجموعہ ہے. ان کے کالموں میں مضامین کی اتنی کثرت ہے کہ پڑھنے والے حیران رہ جاتے ہیں. وہ ادبی کالم لکھتے ہیں تو ایک نقاد کا قلم تھامے محسوس ہوتے ہیں. جب سماجی مسائل پر قلم اٹھاتے ہیں تو ماہر سماجیات کا تصور ابھرتا ہے. جب معاشی ناہمواریوں کا تذکرہ تحریر کرتے ہیں تو افسانوی رنگ جھلکنے لگتا ہے. شیخ‌فرید کی کالم نویسی اپنے اچھوتے انداز اور متنوع عنوانات کے باعث دلچسپی کے کئی سامان لیے ہوئے ہے.
کالم نگاری دیگر تحریری اصناف سے ایک جداگانہ انداز رکھتی ہے. اس کا اسلوب اور پیش کرنے کا انداز بڑا جچا اور نپا تلا ہوتا ہے. کالم نگار کا لمحہ موجود سے باخبر ہونے کے ساتھ ساتھ لمحاتِ گذشتہ سے واقف ہونا بھی ضروری تصور کیا جاتا ہے. لوگ حال میں جیتے ہیں اور ایک کالم نگار بیک وقت تینوں زمانوں میں جیتا ہے. اس کی نگاہ مستقبل پر بھی ہوتی ہے اور وہ ماضی کے حالات و واقعات سے بھی آگاہ ہوتا ہے.
شیخ فرید اعلٰی اور کہنہ مشق قلم کار ہیں. یہی وجہ ہے کہ وہ کالم نگاری کے میدان میں بھی اپنا آپ منوا چکے ہیں. ان کے کالموں کی ایک نمایاں خوبی عنوانات سے واضح ہوتی ہے جو قاری کی دلچسپی حاصل کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں، ذرا ملاحظہ کیجیے:

• قرض کے بوجھ سے جھکے جاتے ہیں

• ماں بچہ اور بارش

• نسائی ادب کی علم بردار

• بلوچستان میں ادب کا المیہ

• تمغے سینے پہ سجانے والے

• شہزادوں کی شاہ خرچیاں

شیخ فرید بلوچستان کے ادبی افق کے ایک درخشندہ ستارے ہیں. ان کی یہ کتاب قارئین کو سوچ کے نئے زاویوں سے روشناس کرواتی ہے. شیخ فرید کی اس کتاب کی بابت آخر میں یہی کہوں گا کہ ان کی کالم نگاری معاشرے اور اس میں پھیلے مسائل کی سچی عکاسی ہے. امید ہے وہ اپنے طبع شدہ مزید کالموں کو بھی مجموعوں کی شکل میں سامنے لے کر آئیں گے.