من کی سچائی شاعری میں نظر آتی ہے. ہمارے سماج کی اونچ نیچ کی فرسودہ رسموں کو تخیل ملتا ہے تو وہ شاعری بن جاتی ہے. یہی احساس کی ترجمانی معاشرے کی اصلاح کا باعث بھی بنتی ہے. ان خیالات کا اظہار اوڈیرو لعل سندھ سے تعلق رکھنے والے نوجوان شاعر احساس میرل نے نامور شاعر رشید سارب کے دفتر میں ایک خوش گوار ملاقات کے دوران کیا.
1984ء میں نور محمد سھتو کے گلشن میں آنکھ کھولنے والے میر محمد سھتو شاعر و ادیب، ادبی نام احساس میرل، نئی وسی، ضلع مٹیاری سے 1998ء اوڈیرو لعل منتقل ہوئے جہاں پر سندھ کے نامور شاعر و ادیب، امین اوڈیرائی سے ملاقات ہوئی، جنہوں نے باقاعدہ طور پر شاعری کے وزن، بحر، ردیف قافیہ سمیت تمام رموز و اصناف شاعری بشمول حمد، نعت، منقبت، غزل، نظم سکھائے، اور تاحال راہنمائی و اصلاح کر رہے ہیں. آج اگر احساس میرل، جس مقام پر ہیں اس میں ان کی جستجو، لگن کے علاوہ امین اوڈیرائی کی راہنمائی و محبت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.
احساس میرل کی اب تک سات عدد کتابیں شایع ہو چکی ہیں جب کہ آٹھویں کتاب تکمیل کے آخری مراحل میں ہے. ان میں حساس میرل کی شاعری کے تین مجموعے، 3 انتخاب اور ایک سفر نامہ شامل ہے جب کہ 3 سطرعی جسے سندھی زبان میں، ٹیڑو پر بھی عبور حاصل ہے، احساس میرل کی شایع شدہ کتابیں ذیل ہیں:
(1) (تو زندگي چيو هو) 2014ء شاعري
(2) (جڏهن هو زلف ڇوڙي ٿو) شاعري 2016ء
(3) (سُخنور سنڌ ڌرتيء جا) 2017ء ڀاڱو پهريون ، گڏيل شاعري
(4) (سُخنور سنڌ ڌرتيء جا) 2018ء ڀاڱو ٻيو ، گڏيل شاعري
(5) (دردَ گُهنگهرو ٻَڌا) 2019ء شاعري
(6) (مان شهر اُڏيري ٽيشڻ جو) سفر نامو ۽ ساروڻيون 2020ء
(7 ) (ڪيئن الائي عيد آئي) گڏيل شاعري 2020ء سنڌي ادب ۾ طرح تي مڪمل پهريون ڪتاب
واضح رہے کہ سخنور سندھ دھرتی جا، کے دونوں حصوں میں 300 شاعر و شاعرات کے کلام بھی شامل ہیں جب کہ ایک طرحی مصرعے پر سندھی ادب میں پہلی کتاب ہے جس میں 90 شاعروں نے اپنی اپنی غزلیں اور نظمیں کہی ہیں. علاوہ ازیں زیر تکمیل آٹھویں کتاب میں، نئے سال میں ایک ہی ردیف پر 100 سے زائد اپنی اپنی غزلیں کہی ہیں. ان میں منفرد بات یہ ہے کہ ردیف تو ایک ہی ہے مگر وزن اور قافیہ الگ الگ ہیں. فیکلٹی آف آرٹس اینڈ لینگویجز شاہ عبداللطیف بھٹائی یونیورسٹی، خیرپور میرَس کے ایک طالب علم عبدالقدیر سھتو نے احساس میرل کی شاعری پر، تحقیقی نگراں فیکلٹی آف آرٹس، زاھدہ مری، کی نگرانی میں، احساس میرل جی شاعری جو ابھیاس بھی لکھی ہے. جب کہ اردوشاعری میں:
ٹپکتے آنسوؤں میں وصل کے سب خواب پڑھ لینا
تمہارے شہر میں میرل میں آنکھیں چھوڑ آیا ہوں
جس جگہ سے دوستو مٹی میری لائی گئی
وقت آیا تو وہیں یہ خاک دفنائی گئی
بھول مجھ سے جو ہوئی وہ تو بس ایک بھول ہے
بھول کو تم بھول سمجھ کر بھول مت جانا مجھے
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ لفظ بھول کی تکرار کو کس عمدہ انداز میں استعمال کیا گیا ہے. صرف یہی نہیں بلکہ
تلخ مَیں بھی، تلخ تُو بھی، تلخ ساری گفتگو
تلخ لہجہ، تلخ موسم، تلخیوں میں راز ہے
دو پل ہی سہی جس کے تلے نیند تو آئے
مل جائے کوئی ایسا شجر ڈھونڈ رہے ہیں
احساس میرل کا منفرد کارنامہ، اوڈیرو لعل کی تاریخ میں پہلی لائبریری، ”احساس میرل لائبریری‘‘ ہے جو 2015ء میں ذاتی جگہ اور ذاتی اخراجات پر قائم کی. اس لائبریری میں مختلف زبانوں میں 7 ہزار سے زائد کتابیں موجود ہیں اور ادبی تقاریب بھی اسی لائبریری میں منعقد کی جاتی ہیں.
احساس میرل، سندھی ادب سنگت کی برانچ اوڈیرو لعل اسٹیشن کے سکریٹری بھی ہیں. ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں آپ کو 2016ء میں ایوارڈ، 2017ء میں سندھ ادبی سنگت کی جانب سے سند، ٹاؤن کمیٹی چمبڑ، 2018ء میں بہترین شاعر کا ایوارڈ، مصری شاہ میموریل کمیٹی نصر پور کی جانب سے سند، سندھی ادب سنگت ٹنڈو الہیار کی جانب سے ایوارڈ، دی روز انٹرنیشنل مٹیاری کی جانب سے ایوارڈ، ریڈیو نیٹ ورک جھول کی جانب سے نامور شاعر ایوارڈ کے علاوہ دی سٹیزن فاؤنڈیشن سکول کی جانب سے نشان شاہ عبداللطیف بھٹائی ایوارڈ سے نوازا گیا.