ہر بڑا لکھاری اپنی دنیا خود تخلیق کرتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ دنیا کی بڑی شاعری یا نثر کے لیے بنائے ہوئے پیمانے اکثر چھوٹے پڑ جاتے ہیں اور ان لحاریوں کے فن کے لیے کچھ اور پیمانے درکار ہوتے ہیں۔ جیسے مرزا غالب نے کہا تھا:
”کچھ اور چاہیے وسعت میرے بیاں کے لیے‘‘
13 نومبر 1950ء کو خیرپورٹامیوالی میں جنم لینے والے انور سن رائے اُردو کے معروف فکشن رائٹر، مترجم، صحافی اور شاعر کہلائے۔ 1963ء میں کراچی میں آئے اور صحافت سے منسلک ہوئے، یہیں چار روزناموں کے بانی مدیر بھی رہے۔ انور سن رائے نے اپنا ناول ”چیخ‘‘ 1980ء میں لکھا لیکن اس وقت کے جنرل ضیاء کی آمرانہ پابندیوں کے باعث 1987ء میں سات سال بعد شائع ہوا۔ ناول ”چیخ‘‘ اردو کے مزاحمتی ادب میں ایک خاص مقام رکھتا ہے. اس ناول کو مزاحمتی حلقوں میں خاص طور پر پذیرائی حاصل ہوئی. اردو میں اس ناول کو پہلی بار مارشل لاء اور آمریت کی چیرہ دستیوں کو منکشف کیا۔
ڈاکٹر ناصر عباس نیر ناول کی کہانی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ناول کی کہانی خیرپورٹامیوالی کے ایک خود آگاہ شاعر اور ادیب پر ہونے والے تشدد کے گرد گھومتی ہے۔ مطلق العنان حکمران اکثر تخیل کی مفلسی کا شکار ہوتے ہیں مگر اپنے مخالفین پر وہ تشدد کی وہ سب قسمیں آزماتے ہیں، جو کسی بھی سادیت پسند انسان کی تخیل میں آ سکتے ہیں۔ کہانی کے مرکزی کردار کے جسم کا ہرعیاں و نہاں حصہ بدترین تشدد کا نشانہ بنتا ہے۔
یہ ایک ایسے بے گناہ شخص کی داستان ہے جس کو اذیت خانے میں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، ایسے گناہ کے لیے جو اس نے کیا ہی نہیں۔ لیکن جرم قبول کرانے کے لیے مسلسل زچ کیا جاتا ہے. ایسا تشدد کے آئرنی کے حامل جس اسلوب میں بیان کیا گیا ہے، اذیت کے دوران انسانی وجود کی گہرائیوں میں جس طور ناول کار روانی سے اترا ہے اور انسانی جسم پر وسائیکی کے جن رازوں سے آشنا ہوا ہے اور زندگی کے بنیادی سوالات کے روبرو ہوا ہے۔
ناول کا مرکزی کردار غلام ولد غلاموں ہے جو کراچی آکر شناخت چھپا کر اخبار میں کام کرتا ہے مگر ایک روز انجان لوگ اسے گھر سے اٹھا کر عقوبت خانے میں لے جاتے ہیں اور اتنا تشدد کرتے ہیں کہ وہ تھک کر موت کو گلے لگانے کو تیار ہو جاتا ہے۔
”موت سے بڑھ کر کوئی سچی چیز نہیں اور امید سے بڑھ کر کوئی چیز جھوٹی نہیں۔‘‘
اس کو اذیت دی جاتی ہے لیکن اس کی چیخ سننے والے سب مردہ ضمیر اور سخت دل انسان ہیں۔ سوالات کے پہاڑ اس بے گناہ پر ٹوٹتے ہیں مگر وہ انجان کتابوں کا مطالعہ کرنے والا اپنی سرائیکی زبان سے بھی بخوبی واقف نہیں۔ تشدد کرنے کی صرف وجہ یہ تھی کہ وہ جرم قبول کر لے جو اس نے کیا ہی نہیں۔
”بولے گا۔ ذرا صبر کر۔۔۔ چوری بکھائے گا تو بولے گا، یہ تو کیا اس کا باپ اور اس کی اگلی نسلیں بھی بولیں گی اور ہمارا نام لے کر خدا کی پناہ مانگیں۔‘‘
اس ناول میں جس طور تاریخ، سیاست، نفسیات، وجودی اور ترقی پسندانہ فکر اور اس فکر کے اچھے خاصے گھمنڈ لوگوں کی بڑھتی ہوئی بیگانگی کو پیش کیا گیا ہے، یہ سب اسے اردو کا ایک اہم ناول بناتے ہیں۔
بقول ناصر عباس نیر، ”آج یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ چالیس برس پہلے پاکستان میں ادب لکھنے اور اس کی اشاعت کا مطلب کیا تھا۔ ادیب اپنے عہد کی گواہی دیتا تھا اور اسی بنا پر اس کی کتابوں کی اشاعت نہیں ہو پاتی تھی اور اگر کسی طرح کتاب چھپ جاتی تو پابندی کا شکار ہو جاتی یا غائب کر دی جاتی ۔‘‘
تشدد کرنے کے ایک طریقے کو ”اخروٹ‘‘ کہتے ہیں جس میں رسی اور ڈنڈے کا استعمال کیا جاتا ہے۔ غلام کو میز پر لٹا کر اس کے تلوؤں کے ساتھ ایک چیز ٹکراتے ہے جس سے درد بڑھ جاتا ہے۔
اذیت خانہ میں جب ملزم کچھ نہ بتائے تو اس کے گھر کی عورتوں کو استعمال کیا جاتا ہے تا کہ وہ مجبور ہوکر سب کچھ بتا دے۔
ملزم غلام عدالت میں ایک کیس بیان کرتا ہے کہ ایک عورت کے بیٹے کو خفیہ والے اٹھا کر لے جاتے ہیں اور ایک ایسی چوری کا اعتراف کرنے کو کہتے ہیں جو اس نے نہیں کی ہے۔ لڑکے کو جسمانی اور ذہنی تشدد کرنے کے لیے اس کی ماں اور بیوی کو بھی اٹھا کر لے جاتے ہیں ۔ نئے طریقے کے تحت دونوں عورتوں کو اس مرد کے سامنے برہنہ کرتے ہیں، جس میں وہ ایک کا بیٹا اور ایک کا شوہر ہوتا ہے۔ جب انہیں گھر پہنچا دیا جاتا ہے تو وہ اخلاقی اذیت کو برداشت نہ کرسکنے کی وجہ سے کھانے میں زہر ڈال دیتے ہیں اور سب موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں مگر صرف ایک چھوٹا بچہ بچ جاتا ہے جو گھر میں آتے ہی سو جاتا ہے۔
غلام کو ہر مختلف طریقوں سے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور پھر بالآخر اسے اس سرسری عدالت تک پہنچا دیتے ہیں جہاں سے اسے جیل بھیجا جاتا ہے۔ ناول کے حوالے سے محمد عظیم ستار لکھتے ہیں کہ ناول کا موضوع 1977ء کا مارشل لاء ہے اور اس دوران ہونے والی پرتشدد کارروائیوں کا بیان ہے. ناول کی کہانی ایک ایسے فرد کی داستان ہے جو شاعر ادیب اور اخبار نویس ہے۔ انور سن رائے نے اس ناول میں، عقوبت خانے میں ہونے والے تشدد کو بیان کیا ہے۔ جرم کے اعتراف کے لیے تشدد کے مختلف طریقے استعمال کیے جاتے ہیں اور کس قدر تشدد کیا جاتا ہے کہ انسان ایک ہی چیز چاہتاہے اور وہ ہے موت۔ ناول کے مرکزی کردار غلام کو ایک ایسے جرم کی پاداش میں تشدد کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے جو اس نے کیا ہوتا ہی نہیں۔ المختصر ناول مظلوم اور پسماندہ طبقے کی ایک دردناک چیخ ہے۔ یہ ناول لوگوں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے والے طاقتور طبقہ کے خلاف ایک مذمتی آواز ہے۔
نہایت مختصر اور جامع تعارفی جائزہ۔ بہت اچھے ارسلان رضا۔
Thank you dear
ناصر عباس نیر نے ناول ” چیخ” کے بارے میں جو لکھا ہے۔ کیا مجھے اس کا حوالہ مل سکتا ہے ؟
جی بالکل ،ناول کے فلیپ سے ۔۔۔۔
اشاعت پنجم:6 مارچ 2021