محبوب عالم کی شعر گوئی ”اوراقِ دل‘‘ کے آئینے میں – محمد اکبر خان اکبر

اس کتاب کے خالق شاعر بھی ہیں، محبوبِ عالم بھی اور زاہد بھی. دردِ دل بھی رکھتے ہیں اورعقابی نگاہ بھی. ان کی شاعری میں الفاظ و تراکیب کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے. بنیادی طور پر وہ غزل گو شعراء میں ممتاز مقام پر متمکن دکھائی دیتے ہیں. ان کی شاعری کی بدولت ان کی شخصیت اور اس میں پنہاں جذبات و احساسات کے رنگ محسوس کیے جا سکتے ہیں. محبوب عالم کا لہجہ شگفتہ اور پُردرد ہے. وہ بے شمار زایوں سے ایک مرکز کو نگاہ میں رکھنا جانتے ہیں. ان کی غزل کے چند اشعار دیکھیے:

ایک مدت تک رہا ہے آنکھ میں
رنگ میرے یار کا ہے آنکھ میں
ڈھونڈتا ہے ہر کوئی ہر دور میں
جانے ایسا کیا رکھا ہے آنکھ میں

ان کی غزل گوئی کلاسیکی انداز کی حامل ہے جس میں جدیدیت ایک اور حوالے سے جھلکتی ہے:

اس کے ہر ایک ظلم سے صرفِ نظر کیا
تب جا کے اس کے شہرِ تمنا میں گھر کیا

بعض اوقات وہ تعلی سے کام بھی لیتے ہیں مگر کسرِ نفسی کو بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے:

تیرگی میں جو کچھ اجالا ہے
میرے ہونے کا اک حوالہ ہے
شہر کو خیر باد کہنے کے بعد
دشت و صحرا نے مجھ کو پالا ہے

موضوعات کی وسعت ان کی غزل کے محاسن میں سے ایک ہے:

تیری مثال ہی رکنا تھا چند لمحے یہاں
تیرے خیال کا سایہ بھی پھر گزر ہی گیا

ایک اور غزل کا مطلع ہے:

ابھی تو بات ساری خواب تک ہے
تناؤ کیوں مرے اعصاب تک ہے

رمز و ایمائیت محبوب عالم کی غزل میں خون کی طرح شامل ہے جو ان کی شاعری میں ایک روانی اور حسن و خوبی کو جنم دیتی ہے. وہ ہر حال میں جینا جانتے ہیں اور مشکل سے گھبرانے کے بجائے اس کا مقابلہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں:

جواں جذبات سے خود لڑ رہا ہوں
میں اپنی ذات سے خود لڑ رہا ہوں
ابھی سورج نہیں ابھرا کہیں سے
ابھی میں رات سے خود لڑ رہا ہوں

محبوب عالم کا اظہاری جمال، بہت مقامات پر جلوہ افروز ہے جو قاری کو ایک اور دنیا کا نظارہ کرواتا ہے. ان کی شاعری قلب و نظر کا استعارہ ہے.
محبوب عالم نے عالمِ سخن میں اپنا ایک منفرد مقام بنالیا ہے. ”اوراقِ دل‘‘ ان کا ایسا مجموعہ کلام ہے جو شاعری سے شغف رکھنے والوں کی پیاس بجھانے کے بجائے مزید بڑھا دیتا ہے اور قاری حرف حرف سے لطف کشید کرتا ہے. اس مجموعہ میں شامل کلام معیاری اور دل میں اترنے والا ہے جو شاعر کے فن و فکر کی بلندی اور علمی قامت کا واضح ثبوت ہے. شاعر ہم عصر شعرا کی صف میں ممیز و منفرد دکھائی دیتے ہیں جن کا مطمع نظر بے ساختہ ان کی غزلوں میں دکھائی دیتا ہے.
محبوب عالم کی غزل سچے جذبوں سے عبارت ہے. وہ تصنع، تکلف اور بناوٹ کے بغیر برجستگی سے اشعار کہتے چلے جاتے ہیں. ان کا لہجے شیریں، شستہ اور خلوص جیسی خصوصیات سے پر ہے اور اشعار میں تسلسل اور روانی بدرجہ اتم موجود ہے. وہ جدت سے نہ صرف خوب واقف ہیں بلکہ اسے برتنا بھی جانتے ہیں. ان کا کلام غنائیت، ترنم اور پراثر اشعار سے مزین ہے.
بلند خیالی، مضمون آفرینی اور ندرتِ خیال نے ان کی شاعری کو چار چاند لگا دیے ہیں. محبوب عالم کا مجموعہ کلام پڑھنے کے بعد قاری ایک نئے تجربے اور پر اثر کیفیات سے ضرور آشنا ہوتا ہے.

محبوب عالم کی شعر گوئی ”اوراقِ دل‘‘ کے آئینے میں – محمد اکبر خان اکبر” ایک تبصرہ

  1. ماشاءاللہ بہت خوب جناب
    آپ کی کتاب دوست کاوشیں قابل صد تحسین ہیں ۔اللہ تعالیٰ آپ کے قلم کی روانی کو جلا بخشے اور آپ کی لگن کو دوام عطا فرمائے آمین ثم آمین

تبصرے بند ہیں