”دل نے جو کہا‘‘، کاوشؔ کاظمی کی کاوش – سید فیاض الحسن

طلب مختلف اور عطا مختلف
تو پھر مانگیں ہم بھی دعا مختلف
کاوشؔ کاظمی کا شعری مجموعہ، ”دل نے جو کہا‘‘، محبت و خلوص بھرا تحفہ بذریعہ ڈاک وصول ہوا. وقت کی قلت آڑے آنے کے سبب تاخیر ہوئی مگر کتاب نظروں سے اوجھل اور دل سے دور نہ ہو سکی. کاوشؔ کاظمی کی کاوشوں کا جب مطالعہ کیا تو ہر صفحہ اپنی انفرادیت منواتا نظر آیا. شعری مجموعہ میں حمد، نعت، مناقب، غزلوں کی سینچری میں کاوشؔ کاظمی نے جن موضوعات کو جمالیات کے اظہار کا ذریعہ بنایا ہے، ان میں:
اے میرے مالک میرے خالق میرے مولا،
آپ سے نسبت نجات ہے میری،
خالی مکان میں شور مچانے سے کیا ملا،
تقدیر کی سختی کا مزہ دیکھ رھے ہیں،
شہر تو شہر گاؤں کو ترس جاؤ گے،
زندگی نے یہ ہی سکھایا،
سانس لینے پر بھی اب تاوان ہوگا،
مار کر پھینکتے ہیں چھاؤں میں،
آنکھون میں سیلاب چھپا کر رکھتے ہیں،
کب تک کوئی جیے خالی درو دیوار میں،
عمر گزری ہے احتیاط میں جی،
ہر خوشی آنے سے ڈرتی ہے چلیں جانے دیں،
دل کے افسانے سنا دیں گے کبھی ہم سے ملو،
ہم کو دنیا میں نہ جینے کا قرینہ آیا،
ہم درد کو سہتے ہیں دہائی نہیں دیتے،
آپ کا بھی کچھ ملال ہو گیا،
جب بھی پیاروں کا ساتھ چھوٹتا ہے،
دل میں کچھ نہ گماں رکھ کاوشؔ،
کہانی پھر سے دہرانے لگی،
یقین کیسے کریں وہ گمان باقی ہے،
کہاں کسی کو مکمل کمال ملتا ھے،
اور ملی نغمہ سمیت دیگر اپنے اپنے انداز و خصوصیات کی ترجمانی بھی کر رہے ہیں.
کاوشؔ کاظمی نے زندگی اور معاشرے کے پوشیدہ حصوں پر گہری نظر رکھتے ہوئے اسے جس طرح شاعری کے سانچے میں ڈھالا ہے، یقیناً یہ اقدام قابل ستائش و تحسین کے قابل ہے. گو کہ کاوشؔ کاظمی کی یہ پہلی کاوش ہے اس کے باوجود اس کتاب کو وہ مقام حاصل ہوا ہے جو ادب کے گلشن میں ایک کھِلتی کلی کو ہوتا ہے. کاوشؔ کاظمی نے کامیابی کی منزل کے زینے پر پہلا قدم رکھ لیا تو منزل تک بھی پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے.

امیر شہر سے کہہ دو بس انتظار کرے
تری بساط کے مہرے غریب بدلیں گے

زندگی کے تلخ تجربات، دُکھی دل کی صداؤں سے گونجتی غزلیں قاری کو متاثر کیے بغیر نہیں رہ سکتیں:

اک روٹی کے چکر میں بلکتے ہوئے بھوکے
بس وقت کے حاکم کی عطا دیکھ رہے ہیں

مزید دیکھیے کہ:

سوکھی زرد شاخوں پر پھول بھی نہیں کھلتے
پھر بھی ایسے منظر میں تتلیاں تو آتی ہیں
پتھروں سے ٹکرا کے شیشہ ٹوٹ جاتا ہے
پاؤں زخمی کرنے کو کرچیاں تو آتی ہیں

یقیناً غزل کہنے کے لیے وسیع مطالعہ کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کا عکس غزل میں نمایاں بھی نظر آتا ہے. کاوشؔ کاظمی کی کاوش مزید دیکھیے کہ:

ہر ایک عہد نے کاوشؔ یہ خواب دیکھا ہے
ہمارے بخت کو شاعر ادیب بدلیں گے