”کرک ناتھ‘‘ ایک ایسے مرغ کی نسل ہے جس کا رنگ تو سیاہ ہوتا ہی ہے ساتھ ساتھ اس کا خون، ہڈیاں اور ماس بھی سیاہ ہوتا ہے. ناول نگار محمد حفیظ خان نے پورے معاشرے کو کرک ناتھ کے طور پر علامتی انداز میں بیان کیا کہ کس طرح چند مفاد پرست طبقوں نے پورے معاشرے کو کرک ناتھ بنا دیا ہے۔ یہ معاشرہ مکمل طور پر برائی کی جانب گامزن ہے اور بھلائی اب صرف قصوں کہانیوں تک رہ گئی ہے۔ اعلٰی طبقے سے لے کر نچلے طبقے تک نے کس طرح معاشرے میں انتشار پھیلایا ہے۔
محمد حفیظ خان نے اس ناول میں، معاشرے میں پھیلے ہوئے چند سیاہ المیوں کو موضوع بنایا ہے جس میں ہم جنس پرستی، سوشل میڈیا دوستی کے ذریعے خواتین کی عزتوں سے کھیلنا، پولیس کے گھناؤنے افعال، ظلم کے بڑھنے پر مظلوم کا ردعمل اور اشرافیہ کے سیاہ کرتوتوں اور مفاد پرستی کی کہانی ہے۔ نجیب جمال لکھتے ہیں کہ:
”معاشرتی گورکھ دھندے کا بظاہر نیک اور پارسا نظر آنے والا طبقہ اندر سے کیا ہے، یہاں بہت سے کرداروں سے پردہ سرکایا گیا ہے۔‘‘
ہمارے معاشرے میں مقتدر لوگ غریبوں پر حاوی ہیں، ان کے لیے کوئی قوانین نہیں، وہ کچھ بھی کریں چاہے وہ انصاف اور انسانیت کو پاؤں تلے روندتے چلے جائیں لیکن ایک عام غریب آدمی کے لیے اس معاشرے میں سارے قوانین موجود ہیں سوائے انصاف اور انسانیت کے۔
معاشرے میں ایسے سیاہ لوگ موجود ہیں جو طاقت کے حصول اور مفادات کی خاطر ہر سیاہ ہتھکنڈے آزماتے ہیں۔ یہ کہانی ایسے بچوں کی کہانی ہے جنہوں نے بچپن میں ظلم کی انتہا سہی اور لڑکپن میں ظلم کی انتہا کی. جن بچوں کو خوف سے لڑنے کی عادت ہوجائے تو پھر وہ زندگی میں کسی بھی خوف سے نہیں ڈرتے وہ پھر اپنی ہی ایک الگ دنیا بنا لیتے ہیں. ان کے دِلوں میں انسانیت ختم ہوجاتی ہے۔ شاکا اور کاشی کے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہے جنہیں بچپن میں زندگی نے بہت تلخ تجربات سکھا دیے اور چھوٹی عمر میں سیریل کلر بن گئے. ان کے لیے قتل کرنا ایک عام سی بات ہو گئی تھی۔
”افضل ہو یا اس کے ساتھ منڈا جاسوس اس وقت تک ہمارا شکار کرتے ہیں کہ جب تک ہم ان کا شکار بنے رہتے ہیں۔ ایک دنیا ان لاری اڈوں اور ریلوے سٹیشن کے ہوٹلوں سے اوپر بھی ہے. اب اٹھو یہاں سے کھسکو، اب ہم اپنا نیٹ ورک بنائیں گے اسی شہر میں۔ ان تمام گھٹیا ہوٹلوں سے بہت اوپر۔ پھر میں دیکھتا ہوں کہ کون ہم تک پہنچ پاتا ہے.‘‘
محمد حفیظ خان نے معاشرے کے پولیس سسٹم اور مفاد پرست طبقہ کے گھناؤنے افعال کو موضوع بنایا ہے کہ ہمارے اس معاشرے کو بگاڑنے میں سب سے بڑا ہاتھ ان مفاد پرست حکمرانوں کا ہے جن کے لیے انصاف اور انسانیت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اس کے ساتھ ساتھ میڈیا اور دوسرے اقتدار استعمال کر کےمزید طاقت ور بننے کی کوشش کرتے ہیں اور ہمارے معاشرے کے قوانین سسٹم کو ان مفاد پرست طبقہ نے سیاہ کر دیا ہے۔ حفیظ خان لکھتے ہیں کہ:
”جو کرپشن ہے اس کی ایک سکیپ ویلاسٹی ہے، جیسے ایک راکٹ کو زمین کے مدار سے باہر جانے کے لیے یک مخصوص سکیپویلاسٹی چاہیے ہوتی ہے۔ اسی طرح ہمارے معاشرے میں جس شخص نے کرپشن کی انتہا کر لی اور سکیپ ویلاسٹی سے باہر نکل گیا تو اس پر ہمارے قوانین کچھ اثر انداز نہیں ہو سکتے اور جو کرپشن کی انتہا کو نہیں چھو سکتا اس کے لیے ہمارے قوانین موجود ہیں اور یہ ناول زمانہ موجود کو ظاہر کرتا ہے.‘‘
غریبوں کے لیے سارے قوانین موجود ہیں اور پولیس سسٹم کے سارے گھناؤنے تشدد بھی ان کے لیے ہیں. اگر یہ سب حکمرانوں اور مفاد پرست طبقوں کے لیے استعمال کریں تو شاید معاشرے میں بڑے صاحب اور خالد جیسے اور بہت سے ایسے کردار موجود نہ ہوں اور ان کے مفاد کا حصہ بننے والے رستم، کالے کردار جو کلثوم اور ماہین جیسی لڑکیوں پر ظلم نہ کریں، جو آگے بڑھنے کے خواب دیکھتی تھیں. لیکن اس نظام نے ان کی آنکھوں سے سارے خواب نوچ ڈالے. انہیں معاشرے کی بد ترین عورتوں میں شامل کر دیا.
”کچھ دیر بعد دونوں باپ بیٹی کو شکایت درج کرانے کے بہانے اندر بلایا گیا اور پھر دونوں کو الگ الگ نجی مکانات میں منتقل کرنے کے بعد ایف آئی آر کاٹ دی گئی کہ کلثوم نام کی پیشہ ور فاحشہ لڑکی اپنے باپ کی سرپرستی میں سرعام فحش حرکات کر کے گاہک پھانستی ہے اور پھر اپنے گھر لے جا کر زنا کا مرتکب ہوتی جسے موقع پر ہی گرفتار کر کے تھانے لے آیا گیا ہے۔‘‘
ناول میں بیان ہے کہ مفاد پرست طبقہ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے عورت کو بطور جنس استعمال کرتا ہے۔ ان کی نظروں میں عورت کی کوئی عزت نہیں بلکہ ان کے لیے کوئی عام سی چیز ہے جس کے بدلے مفادات خریدے جا سکتے ہیں۔ اس مفاد پرست طبقے کے لیے عورت کی کوئی عزت نہیں کیوں کہ ابھی تک معاشرے نے عورت کو جیتا جاگتا وجود ماننے سے انکار کیا ہے۔ ان کے لیے عورت کے کوئی جذبات نہیں، وہ مردوں کی تسکین کے لیے پیدا ہوتی ہے۔
”راؤ صاحب ایک دو رات ثنعیہ کو انجوائے کریں، اس کے بعد ایک نئی لڑکی بھجواتی ہوں.‘‘
محمد حفیظ خان نے اس ناول میں مردوں کی بے حسی کو دکھانے کی کوشش کی ہے کہ ہمارے موجودہ معاشرہ کے مرد جانوروں سے بھی بدتر ہوگئے ہیں جو لڑکیوں کی عزت سے کھیل کر انہیں پھینک دیتے ہیں اور زفیرہ احمد کے نزدیک ایسے مرد صرف کتے کے برابر ہوتے ہیں.
”لبراڈار کو دو گھونٹ جوانی چکھا دو تو عمر بھر پاؤں چاٹتا ہے، مگر یہ مرد عورت کی پوری جوانی چوس لینے کے بعد بھی اس پر کبھی اعتبار نہیں کرتا، ہمیشہ بے اعتبار کر کے مارتا ہے۔‘‘
زفیرہ احمد معاشرے کی ایسی عورت ہے جو تن تنہا ایڈورٹائزنگ کمپنی چلاتی ہے. کسی مرد پر اعتبار کیے بغیر، لیکن بعد میں وہ مبشر رضا پر اعتبار کر کے کمپنی اور خود کو برباد کر دیتی ہے اور اپنی کمپنی کو بچانے کے لیے اپنی عفت،عزت اور وقعت سب گنوا دیتی ہے۔ اس لیے وہ مردوں کو اعتبار کے قابل نہیں سمجھتی. اسے اپنی دوست، جو کہ فیمینسٹ تھی، اس کی بات یاد تھی۔
”اس کے نزدیک طلب کی شدت کے لمحات میں کسی بھی مرد سے جسمانی اختلاط کتے کے ملاپ سے بڑھ کر نہیں ہوتا کہ جیسے آپ پچکار کر بلاتے ہیں، حظ اٹھاتے ہیں اور پھر پچھواڑے پر لات مار کر بھگانے کے بعد کسی اچھے سینیٹائزر سے خود کو صاف کر لیتے ہیں۔‘‘
زفیرہ احمد، جسے مردوں سے سخت نفرت ہے اور مردوں کو وہ جانوروں سے بدتر سمجھتی ہے لیکن اس کے برعکس ماہین جو مردوں کے بغیر نہیں رہ سکتی، اسے ایسے مرد چاہیں جو اس کی جسمانی خواہش کو پورا کر سکیں۔ حفیظ خان نے عورت کی فطری جسمانی خواہش کو جس انداز میں پیش کیا ہے اس معاملے میں وہ فرائیڈ کے نظریات کے قریب نظر آتے ہیں اور ماہین کے ذریعے عورت کی جسمانی خواہش کو دکھایا ہے۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا کے ذریعے کس طرح نوجوان نسل اپنی زندگی خراب کر دیتی ہے اور نہ جانے پھر کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہے، اسی طرح ماہین بھی اپنی زندگی برباد کر دیتی ہے. سوشل میڈیا نے اس کے جذبات اور نفسیات کو تباہ کر دیا تھا۔ علی عبداللہ لکھتے ہیں:
”سوشل میڈیا کے دلکش پلیٹ فارم پر خوب صورت اور دل نشین لفظوں کے حامل بہت سے سلطان موجود ہیں جو اپنے اندازبیاں اور لفاظی سے سامنے والے کو منٹوں میں فتح کرنے کا ہنر جانتے ہیں مگر حقیقتا ایسے لوگ فاتح نہیں شکاری ہوتے ہیں جو معصوم اور سادہ لوح لوگوں کو غزال سمجھ کر اپنے جال میں پھنسا لیتے ہیں۔‘‘
بنیادی طور پر حفیظ خان نے اس ناول میں حالات و واقعات کی نفسیاتی تعبیریں پیش کی ہیں۔ حالات کے پیش نظر انسان کس طرح اپنے حواس کھو بیٹھتا اور نفسیاتی پن کا شکار ہو جاتا. پھر وہ خوف و ڈر کی ایک مخصوص سکیپ ویلاسٹی سے باہر نکل آتا ہے۔ اس ناول کے کردار ظلم کی انتہا سہنے کے بعد ظلم کی انتہا کرنے لگتے ہیں کیوں کہ جب انسان اپنی ویلاسٹی سے باہر آجائے تو وہ کچھ بھی کر سکتا ہے اور پھر اسے روکنے کی کسی کے پاس ہمت نہیں۔ نجیب جمال لکھتے ہیں:
”جب کوئی سماج اپنے زوال کی آخری حد پر پہنچ جاتا ہے تو پھراس کے خاکستر سے نئی زندگی جنم لیتی ہے، اسی امید پر کرکناتھ لکھا گیا ہے.‘‘
امید ہی وہ محرک ہے جو ایک ناکام انسان کو کامیابیوں کی منزل تک پہنچاتا ہے کیوں کہ ہر رات کے بعد صبح ضرور ہوتی ہے اور مکمل اندھیرے کے بعد ایک امید اس ناول کا بہت خوب صورت حصہ ہے، جو اس ناول کو حقیقی پن میں ڈھالتا ہے۔ محمد حفیظ خان اس ناول میں یہ دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ظلم و اذیت سہنے کے بعد جب امید کی کرن نظر آتی ہے تو ایک نئی زندگی مل جاتی ہے جیسے شاکا اور کاشی کو رحمت خان کی شکل میں امید کی کرن ملتی ہے۔ رحمت خان شاکا اور کاشی جیسے سیریل کلر کو تعلیم دلواتا ہےاور تعلیم حاصل کرنے کے بعد شاکا دانش سعید اور کاشی سردار محبوب قادر بخش بن جاتے ہیں اور اسی طرح زفیرہ احمد کو دانش سعید کی شکل میں اور ماہین کو زفیرہ احمد کی شکل میں امید ملتی ہے۔ حفیظ خان لکھتے ہیں کہ زندگی کسی کی بھی سہل نہیں ہوتی بلکہ اسے سہل کی جاتی ہے۔ خودکشی واحد حل نہیں ہوتا بلکہ ہمت سے ہر کسی کا مقابلہ کرنا چاہیے کیوں کہ جب یہ ارادے راسخ ہو جاتے ہیں تو پھر انسان ہر مشکل کو بغیر شکست دیتے ہوئے منزلوں تک پہنچ جاتا ہے اور الجھنوں کے پہاڑوں کے سینے امید سے چیرتا چلا جاتا ہے۔
ناول ”کرک ناتھ‘‘ حقیقت کا آئینہ ہے۔ اس ناول میں ہر کردار اور ہر واقعہ حقیقت نگاری کی عکاسی کرتا ہے۔ حفیظ خان نے تمام واقعات کو فنکارانہ مہارت و چابک دستی سے بیان کیا ہے اور ہر کردار کو اچھے ڈھنگ سے پیش کیا ہے، جس سے ناول کا پلاٹ مضبوط اور شان دار نظر آتا ہے۔
اس ناول میں مصنف نے فلیش بیک کی تکنیک کا استعمال کیا ہے جس سے ناول میں پیچیدگی پیدا ہوتی ہے اور یہ پیچیدگی سسپنس کو برقرار رکھتی ہے کیوں کہ تین ٹریک متوازی تکنیک سے قاری بھول بھلیوں میں گھوم جاتا ہے اور جہانِ حیرت میں گم سم رہ جاتا ہے۔ حفیظ خان کے اسلوب کا انداز بیاں سادہ اور سلیس ہے اور یہی انداز ناول کو مزید نکھارتا ہے اور اس میں دل کشی اور رنگینی پیدا کرتا ہے۔