اگر ادبی تاریخ کی کتابوں کی گرد جھاڑی جائے تو خواتین ناول نگار، ادیبہ و شاعرات کے ذکر بغیر بیان ادھورا اور نامکمل نظر آئے گا. شاید اسی لیے شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہا ہے کہ:
وجود زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ…
گلشنِ ادب کی آب یاری میں خواتین نے اپنے وجود سے کاینات میں رنگ کا احساس ضرور دلایا ہے جن میں حیدرآباد سے تعلق رکھنے والی نامور ادیبہ و کالم و افسانہ نگار، ڈاکٹر شمیم انصاری المعروف ”باجی ماںھ‘‘ بھی شامل ہیں. شمیم انصاری ایک راجستھانی حساس عورت ہیں. ان کی حساسیت کا اندازہ ان کے افسانوں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے. شمیم انصاری کا افسانہ ”رابعہ رادھا‘‘ ایک حساس اور مظلوم عورت کی کہانی پر مبنی ہے، جو کہ رادھا سے رابعہ کے روپ میں ڈھل جاتی ہے مگر اسے انا کی سولی پر چڑھا دیا جاتا ہے. اس افسانہ کو پڑھ کر یہ کہنا مشکل نہیں کہ عورت ہی عورت پر ہونے والے ظلم کو بخوبی اجاگر کرسکتی ہے. شمیم انصاری عملی زندگی میں بحثبیت ڈاکٹر اپنے تجربے اور علم کی بناء پر مرض تشخیص کرکے علاج کرسکتی ہیں مگر ان کے افسانوں میں اجاگر ہونے والے معاشرتی بیماریوں اور مسائل کی نشاندھی تو ہے مگر علاج نہیں…
ڈاکٹر شمیم انصاری کی پہلی کتاب، ”رابعہ رادھا‘‘ افسانوی مجموعہ 2001ء میں شایع ہوئی جب کہ 2013ء میں کالم کا مجموعہ ”کچھ کہنا چاہتی ہوں‘‘ شایع ہوا. یاد رہے کہ یہ کتاب پیرپگارا صاحب کے والد مردان شاہ کی جانب سے کراچی میں منعقدہ تقریب میں، فاطمہ ثریا بجیا اور جمیل الدین عالی کے ہاتھوں بہترین کتاب کا ایوارڈ بھی حاصل کر چکی ہے. جب کہ پہلی کتاب ”رابعہ رادھا‘‘ کی تقریب رونمائی، فاطمہ ثریا بجیا، اور دوسری کتاب، ”کچھ کہنا چاہتی ہوں‘‘ کی تقریب رونمائی، محترمہ فاطمہ حسن کے ہاتھوں ہو چکی ہے. اب موجودہ دور میں شمیم انصاری کی زندگی کے تجربات و ذاتی مشاہدات کی روشنی میں خود نوست سوانح حیات، ”احساس کی چِتا‘‘ تکمیلی مراحل میں ہے.
ڈاکٹر شمیم انصاری کے افسانے ہوں یا کالم، ان میں قلم کی حرمت اور 80 سے زائد معاشرتی گھمبیر مسائل کو جس انداز میں شاملِ کتاب کیا گیا ہے وہ قابل ستائش ہے. ان کا کالمی مجموعہ ”کچھ کہنا چاہتی ہوں‘‘ میں ”یہ کس کے موتی کھوئے ہیں‘‘، ”سٹریٹ کرائم‘‘، ”سازشیں دشمن کی بنا دو ناکام‘‘، ”کاروکاری، ہمارے معاشرے کے ماتھے پر کلنک‘‘، ”چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کےچلے‘‘، ”ان گنت مسائل اوربڑھتی ہوئی آبادی‘‘، ”عورت کی عزت و تکریم”، ”صحت مند معاشرہ کی ضمانت‘‘، ”پوچھتی پھرتی ہے ممتا‘‘، ”قرار کیوں نہیں‘‘، ”میری گمشدہ جنت‘‘، ”انصاف کی بحالی، ایک امتحان‘‘، ”خطاب رکھ کر سر ہمیں دے دو‘‘، ”جنگل کا قانون‘‘، ”کروڑوں عوام کے مجرم‘‘، ”نا انصافی اور معاشرہ‘‘، ”نہ کپڑا، نہ روٹی، نہ مکان‘‘، ”ووٹ اور فرشتے‘‘، ”وزیر اعظم کے آنسو‘‘، و دیگر اہم موضوعات شامل ہیں.
لیاقت میڈیکل کالج جام شور سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ڈاکٹر شمیم انصاری کے افسانوں میں بتدریج بہتری اور روانی شروع ہوئی جن کی بناء پر ان میں ادبی ذوق پروان ہی نہیں چڑھا بلکہ مصنفہ نے گلستان ادب میں ایک منفرد مقام بھی حاصل کیا.
تعلیم، تجارت اور خدمتِ ادب: کتاب فروش آن لائن بُک سٹور – حذیفہ محمد اسحٰق
”مشاہیرِ بلوچستان“، پروفیسر سید خورشید افروزؔ کی متاثر کن تحقیق – محمد اکبر خان اکبر
”حسنِ مصر“ سے آشنائی – محمد اکبر خان اکبر
سلمان باسط اور ”ناسٹیلجیا“ کا پہلا پڑاؤ – محمد اکبر خان اکبر
اُردو کے نامور ناول نگار اور افسانہ نویس، منشی پریم چند – آمنہ سعید
نامور ادیب، پروفیسر تفاخر محمود گوندل کا بے مثال حجاز نامہ ”جلوہ ہائے جمال‘‘ – محمد اکبر خان اکبر
ممتاز شاعر اور ادیب، اکرم خاورؔ کی شاعری – آصف اکبر
ممتاز شاعرہ اور افسانہ نگار، فوزیہ تاج کی کی ایک اعلٰی افسانوی تصنیف، ”جل پری‘‘ – محمد اکبر خان اکبر
نامور کالم نگار و افسر تعلقات عامہ محترمہ تابندہ سلیم کی کتاب، ”لفظ بولتے ہیں“ – محمد اکبر خان اکبر
اسد محمد خان، فن اور شخصیت – شہزینہ شفیع