حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے فخرالدین کیفیؔ صدیقی تادم تحریر لندن سے ہوتے ہوئے آئیرلینڈ کے شہر ڈبلن میں موجود ہیں. موصوف کی 2010ء میں شایع شدہ پہلی تصنیف ”ایک غیر مطبوعہ کتاب‘‘ طباعت کے مراحل طے تو کر چکی ہے مگر آج بھی اس کی اہمیت و افادیت برقرار ہے. ”ایک غیر مطبوعہ کتاب‘‘ کے سرورق اور عنوان کا بغور جائزہ لیا جائے تو واضح نطر آئے گا کہ سرورق پر معاشرے کو درپیش مسائل کو ”غباروں‘‘ کی شکل میں اجاگر کیا گیا اور قلم کی نوک سے غبارہ کو پھاڑتا ہوا دکھایا گیا ہے، یعنی قلم (علم) سے ان برائیوں کا خاتمہ ممکن ہے، اور کیوں نہ ہو کہ علم کی افادیت سے انکار قطعی ناممکن ہے. بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ علم کی ہی بناء پر انسان اشرف المخلوقات ٹھہرا.
یوں تو مزکورہ کتاب کو بے پناہ شہرت حاصل رہی جس کی خاص وجہ اس کتاب میں 51 اسباق ہیں اور ہر سبق میں واقعہ ہے. اس کے بعد ہر سبق کے تناظر میں کچھ سوالات ہیں، مشقِ سخن کے عنوان سے. سوالات اہم ہیں اور قاری کو سوچنے پر مجبور کرسکتے ہیں. کہانیوں سے زیادہ یہ سوالات اہمیت کے حامل ہیں۔ کتاب سے اگر سوالات نکال دیے جائیں تو یہ محض کہانیاں صرف اور صرف بچوں کے کام آسکتی ہیں جب کہ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ طالب علموں کو نظریہ پاکستان، تقسیمِ ہند، قائد اعظمؒ کی حاضر دماغی، ہندوؤں کی خود غرضی، ہندو ذہنیت و دیگر مسائل سے روشناس بھی کرایا گیا ہے جب کہ اس کی سب سے بڑی خصوصیت کتاب میں ایک ابتدائی ٹیسٹ بھی ہے جس کے لیے مصنف نے مزاحاً لکھا ہے کہ قاری اگر ان سوالوں کا جواب دے سکے تو کتاب خریدنے یا پڑھنے کی ضرورت نہیں. کتاب کے آخر میں مصنف نے ایک سوال نامہ بھی ترتیب دے کر اور ان کے جوابات بھی تحریر کر دیے ہیں جو کہ قاری کو بہت سے حقائق سے آگاہ کرتے ہیں. کسی بھی کتاب میں مشقِ سخن کے اس انداز کو قارئین نے جس طرح قبول کیا، یقیناً وہ فخرالدین کیفیؔ صدیقی کے لیے قابلِ ستائش ہے. ادبی حلقوں میں اس بات پر مزید زور دیا جارہا ہے کہ اس انوکھی کتاب کو دوبارہ شائع کیا جائے تاکہ نوجوانوں میں اندازِ تحریر و حل کو فروغ ملتے ہوئے معاشرے کی اصلاح بھی ہو سکے.
ایک غیر مطبوعہ کتاب کے اسباق:
بنیاد پرست، ایک ہی جملے نے، کفن چور، فتویٰ اور تقویٰ، دو دعویدار مائیں، دروغ گوئی، وعدہ، پچھلے دنوں، بھیڑ اور بھیڑیا، قائد اعظمؒ اور چیف جسٹس، نمازِ استسقاء، ارمانوں پر اوس، قسمت، بغیر وضو، ڈاڑھی، مسافر مولوی، دین و دنیا، ابھی نہیں بگڑا، پرجری عاجزی، اللہ کی آواز، فروخت شدہ مال، گدھے کی سرگذشت، ڈسپلن، ماؤنٹ بیٹن، قربانی، ماں کی آنکھ، ثواب کا مارا، کس سے منصفی چاہیں، استاد استاد ہوتا ہے، ہشیاری جان ہے تو، بدالودود بیگ اور بیگم، کوئی تو تھا، ویرانی، خوش فہم، ایک مکالمہ، قصہ ایک جیکٹ کا، دو شادیاں، موازنہ، تاریخ، بیڈ ٹی، گربہ کشتن روز اول، پدرم سلطان بود، مومن، دودھ پینے والے مجنوں، کٹھ پتلی، محراب، عیب جوئی، الف، ابتدائیہ، پیر صاحب، کے علاوہ پچاس سے زائد حل شدہ گیس پیپر کی مانند پر جوابات بھی موجود ہیں.
اپنی منفرد طرز و تحریر کی اس کتاب کو ملنے والی پزیرائی نے ہی فخرالدین کیفیؔ صاحب کو مزید کتابیں لکھنے کی جانب راغب کیا.
نامور ادیب، پروفیسر تفاخر محمود گوندل کا بے مثال حجاز نامہ ”جلوہ ہائے جمال‘‘ – محمد اکبر خان اکبر
ممتاز شاعرہ اور افسانہ نگار، فوزیہ تاج کی کی ایک اعلٰی افسانوی تصنیف، ”جل پری‘‘ – محمد اکبر خان اکبر
نامور کالم نگار و افسر تعلقات عامہ محترمہ تابندہ سلیم کی کتاب، ”لفظ بولتے ہیں“ – محمد اکبر خان اکبر
اسد محمد خان، فن اور شخصیت – شہزینہ شفیع
سلام بن رزاق نے کردار نہیں رویے خلق کیے ہیں: سرفراز آرزو
ادبی فورم، ریاض کے زیرِ اہتمام حج سے واپسی پر حسان عارفی کی تہنیت میں ادبی نشست
معروف ادیب اختر شہاب کا افسانوی مجموعہ ”من تراش“ – محمد اکبر خان اکبر
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد مانگٹ کا بے مثل سفرنامہ، ”پھر چلا مسافر“ – محمد اکبر خان اکبر
شکریہ ”الفانوس“ – حسنین نازشؔ
یادوں کی بارش میں نہائے ہوئے لمحوں کی روداد