کسی شاہکار ادبی فن پارے کی تخلیق ایک دشوار اور دقت طلب کام ہے اور جب بات ہو تحقیقی فن پارے کی تو یہ کام دشوار ترین شمار ہونے لگتا ہے.
تحقیق ایک فن ہے جس میں محقق اپنی قوت متخیلہ اور مخترعہ کوکام میں لا کر فن پارے کو نگینے کی طرح تراشتا ہے، اس کے ایک ایک حصے کو نہایت باریک بینی سے کڑی کسوٹی پر پرکھتا ہے اور پھر اسے قارئین کے سامنے پیش کر دیتا ہے.
علی حسنین ایسے ہی نوجوان محققین میں سے سرِفہرست ہیں جو فن تحقیق کی باریکیوں سے کماحقہ آگاہی رکھتے ہیں. ان کی تحقیقی کتاب ’’علمائے دین کے سفرنامے‘‘ اس امر کا واضح ثبوت فراہم کرتی ہے.
علی حسنین سفرنامے کے مداحوں میں شمار کیے جاتے ہیں اوراس صنفِ ادب میں اپنی فطری دلچسپی کے باعث انہوں نے یہ موضوع تحقیق کے لیے منتخب کیا اور صمیم قلب کے ساتھ دن رات محنت کر کے ایک اعلٰی شاہکار تخلیق کر ڈالا. ایسی تخلیق وہی شخص کر سکتا ہے جسے اپنے کام سے عشق ہو اور جو استقلال کے ساتھ محنت کرنے کا عادی ہو.
اکبر صمیم قلب سے محنت کرے گا جو
دنیا میں ظفر مند ہوکر رہے گا وہ
آج ان کی ظفر مندی کا جیتا جاگتا ثبوت ’’علمائے دین کے سفرنامے‘‘ کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے. ان کی یہ تحقیقی کتاب کا چار ابواب میں منقسم ہے. ابواب بندی اور ان کے موضوعات کو دیکھتے ہوئے محقق کی محنت اور لگن کو بے ساختہ داد دینے کو جی چاہتا ہے چاہتا ہے. ان کی اس تحقیقی تصنیف میں سادگی، بے ساختگی اور ادبی حسن بھی موجود ہے. محقق نے نہایت عرق ریزی سے یہ کتاب تحریر کی ہے جس کا احساس ایک ایک ورق پڑھتے ہوئے ہوتا ہے.
بے شمار ادبی و فنی محاسن کے ساتھ ساتھ چند مقامات پر کچھ حد تک کمی بھی محسوس ہوتی ہے مثلاً اُردو ادب میں علمائے کرام نے اب تک بے شمار سفرنامے لکھے ہیں، ان کا ایک اجمالی سا تعارف کتاب میں شامل کرنا بہتر ہوتا تاکہ اُردو میں لکھے گئے ان سفرناموں کی ایک فہرست مرتب ہو جاتی جو علمائے کرام نے لکھے ہیں.
جناب علی حسنین کی یہ گراں قدر تحقیقی تصنیف علمائے دین کے ادبی کارناموں کو عوام کے سامنے لاتی ہے اور ان کے ادبی ذوق سے آگاہی فراہم کرتی ہے. فاضل مصنف نے علمائے دین کے سفرناموں کے فکری پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے اور ان کے فکری و فنی تناظرات کا مدلل جائزہ لیا ہے جس سے علمائے دین کے اسلوب اور فکری میلانات سے واقفیت حاصل ہوتی ہے.
علی حسنین کی یہ اعلٰی ادبی تحقیق معلمین، محققین اور سفرناموں کا ذوق رکھنے والے قارئین کے لیے توشہ خاص ہے اس لیے انہیں اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے.