قرۃالعین حیدر اُردو کے افسانوی ادب کا اہم نام ہے. انھوں نے بے انتہا مقبولیت حاصل کی اور ان کے ناول ”آگ کا دریا‘‘ کا شمار اُردو ادب کے مشہور ترین ناولوں میں ہوتا ہے. یوں تو اُردو ادب پر تحقیقی کام کرنے والوں نے قرۃالعین حیدر کے فن و شخصیت پر کام کیا ہے البتہ ان کے ناولوں میں تانیثیت کو بنیاد بنا کر بہت کم تحقیقی کام کیا گیا ہے. قبل ازیں بھارت سے اعجازالرحمٰن ”تانیثیت اور قرۃ العین حیدر کے نسوانی کردار‘‘ کے عنوان کے تحت تحقیق کر چکے ہیں، جن کی یہ کتاب 2010ء میں عرشیہ پریس، دھلی سے شائع ہوئی. اسی سلسلہ کی ایک کڑی کے طور پر نعمان نذیر صاحب نے ’’قرۃالعین حیدر کے ناولوں میں تانیثی شعور‘‘ کے عنوان سے جو محققانہ کارنامہ سر انجام دیا ہے، وہ شاید اب تک تشنہ تھا اور بہت سے محققین کی نظروں سے اوجھل بھی تھا.
تانیثیت کے بارے میں وہ اپنی اس کتاب میں لکھتے ہیں کہ ”ادب میں تانیثیت سے مراد عورت کی ترجمانی اور معاشرتی مسائل کے تناظر میں عورت کی سماجی حیثیت کو بیان کرنا ہے جہاں محض خارجی مسائل کے ساتھ ساتھ داخلی قرب کو بھی بیان کیا جاتا ہے.‘‘
محترم نعمان نذیر نے اپنی اس تحقیقی کتاب کو چار ابواب میں تقسیم کیا ہے. پہلے باب میں وہ ناول میں کرادر نگاری کا فن اور تانیثیت کے بنیادی مباحث کے بارے میں نہایت محنت سے محققانہ رائے تحریر کرتے ہے.
دوسرے باب میں قرۃالعین حیدر کے ناول ”آگ کا دریا‘‘ کا تانیثی مطالعہ پیش کیا گیا. تیسرے باب میں مصنفہ کے ناول ”آخرِ شب کے ہمسفر‘‘ کا تانیثی مطالعہ قارئین کی نذر کیا گیا ہے.
چوتھا باب مصنفہ کے ناول ”چاندنی بیگم‘‘ کے تانیثی مطالعہ پر مبنی ہے.
نعمان نذیر فن تحقیق کی باریکیوں سے آگاہ نوجوان اور باشعور محقق ہیں. ان کا اسلوب تسوید اس امر کا گواہ ہے جس کی واضح تصویر ان کی کتاب میں ملتی ہے. مصنف نے نہایت نپے تلے انداز میں تحقیقی کام کیا ہے اور اس فن کی جزئیات تک کا بہت خیال رکھا ہے. پورے تحقیقی مقالے میں کسی ایک مقام پربھی ایسا جملہ نظر نہیں آتا جو اضافی ہو یا فن تحقیق کے اصول و ضوابط کے خلاف ہو. نعمان نذیر نے ایک ماہر و آزمودہ کار محقق کی طرح قرۃالعین حیدر کے ناولوں میں تانیثی شعور کا محققانہ مطالعہ کیا ہے.
فاضل مصنف نے قرۃالعین حیدر کے ناولوں میں نسوانی کرداروں کا جتنی باریک بینی سے جائزہ لیا ہے اور تانیثی افکار و نظریات پر محققانہ نگاہ ڈالی ہے، وہ یقیناً متاثر کن ہے اور اُردو ادب کی اس اہم تخلیق کار پر مزید تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے ایک راہنما کا درجہ رکھتی ہے.
نعمان نذیر صاحب نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اُردو ناول کے ارتقاء کے زیرِعنوان جو کچھ لکھا ہے، گویا دریا کو کوزہ میں بند کر دیا ہے. اتنی جامعیت کے ساتھ اُردو ناول نگاری کی تاریخ پر روشنی ڈالی ہے کہ تمام اہم نکات سامنے آجاتے ہیں. اسی طرح اُردو ادب میں تانیثیت کو پراثر اسلوب اور عام فہم انداز میں قارئین کے سامنے رکھا ہے.
نعمان نذیر کی یہ تحقیقی کاوش قابل ستائش و صد تحسین ہے. وہ نکتہ آفرینی اور عرق ریزی سے قرۃالعین حیدر کے ناولوں اور ان کے کرداروں کا تجزیہ پیش کرتے ہیں. مجھے یقین ہے کہ مصنف کی یہ ادبی تحقیق اہلِ علم کی توجہ کا مرکز ہوگی اور استفادے کی نئی راہیں کھولے گی.