احساس کے مرحلوں سے گزرنے کا نام شاعری ہے اور اس کا تصور ہر زمانے میں موجود رہا ہے. اس اظہار جمالیات کو سماجی، ثقافتی، رنگ میں ڈھالنے اور تخیل کو حقیقت سے قریب محسوس کرانا ہی بہترین شاعر کی پہچان ہوتا ہے. گلش حبیب ارشد کے دو حرفی پھول ظہیرالدین شمشؔ کے دوسرے مجموعہ کلام ”گیسوئے شب‘‘ میں جو ایک خصوصیت ہے، وہ یہ کہ اس میں شاعر نے دو زبانوں میں ”زُولسانی غزل‘‘ کہہ کر اردو ادب کی دنیا میں ایک انوکھا اندازِ شاعری متعارف کرایا ہے. زولسانی غزل کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں اردو، پنجابی زبان اور اردو، سندھی زبان میں غزل کو پیش کیا گیا ہے. ایک مصرعہ اردو زبان میں تو دوسرا مصرعہ پنجابی زبان میں، بالکل اسی طرح دوسری غزل میں ایک مصرعہ سندھی زبان میں تو دوسرا مصرعہ اردو زبان میں ہے. اس کتاب میں، نہایت مہارت کے ساتھ دو مختلف زبانوں میں کلام پیش کیا گیا ہے. اس قسم کی ایک غزل میں دو زبانوں پر شاعری کرنے والے یہ پہلے شاعر ہیں. تخیل کی حسین وادیوں میں ظہیرالدین شمشؔ نے کس مہارت سے یہ کارنامہ انجام دیا ہے، زرا غور کیجیے:
اوہدا دیدہ بھی پر نم ہو گیا سی
رفوگر چاکِ دل جد سی رھیا سی
کوئی پیغام لے کے کل مرے گھر
پروہناں دور توں اک آ گیا سی
وہ اب خود رنج و غم میں مبتلا ہیں
دغا بازی جنھاں دا مشغلا سی
لگا اس کو برا تھا میرا آنا
اوہدے چہرے توں ظاہر ہو رہیا سی
بہ ظاہر تو وہ دونوں ساتھ میں تھے
دِلاں دے درمیاں پر فاصلا سی
مَیں آتا کیسے لے کے صاف دامن
ہر اِک رہ اچ تے آلودہ ہوا سی
بلانے کے لیے گھر روشنی کو
ہنیرے اچ مَیں دیوا بالیا سی
مزید یہ بھی پڑھیے:
خبر تيرے آنے کی سن کر خوشی میں
سڄو گهر کڻي مون سجائي چڏيو آ
جسے چاہیے روشنی أ کے لے لے
ڏيئو شام ويلي جلائي چڏيو آ
محبت کی اینٹوں سے جس کو چنا تھا
اھو گھر به اج مون کپائي چڏيو آ
سنا شمس ہے یہ کہ تنہا ہی تو نے
رقيبن کي پنجهي ڀجآئي چڏيو آ
کچھ مزید:
جسے زندگی بھر مٹا نہ سکے ہم
دنيا داغ اھڙو لڳائي چڏيو آ
تمہاری نظر نے ہماری نظر کو
سڄو حال دل جو بڌائي چڏيو آ
یہ شوخی یہ ناز و ادا ہاٸے توبہ
اندر م ممڻ ڪو ۾چآئي چڏيو
مختلف زبانوں میں شاعری تو نظروں سے گزری مگر ظہیرالدین شمشؔ کی یہ انوکھی کاوش پہلی مرتبہ دیکھنے میں آئی ہے جو کہ ادبی حلقوں میں انفرادیت کے ساتھ ساتھ مقبولیت بھی حاصل کر رہی ہے. واضح رہے کہ ظہیرالدین شمشؔ کا اس سے قبل پہلا مجموعہ کلام ”کوئی آواز دے رہا ہے مجھے‘‘ کے دو ایڈیشن بھی شایع ہو چکے ہیں، جب کہ دوسرے مجموعے ”گیسوئے شب‘‘ میں، دعا، نعت، منقبت، قومی ترانہ، سمیت مختلف موضوعات پر 90، ایک زُو لسانی غزل پنجابی زبان میں، دو زُو لسانی غزلیں سندھی زبان کے علاوہ تین نثری نظمیں بھی موجود ہیں جب کہ تجرباتی بنیادوں پر ظہیرالدین شمشؔ اس کاوش کی کامیابی کے بعد زو لسانی غزلوں کا ایک تیسرا مجموعہ بھی تیاری کے مراحل میں ہے.