کالم نگار کی پانچ اہم ترین خصوصیات کی بات کی جائے تو تعلیمی صلاحیت، تجزیاتی طرزِ فکر، رائے عامہ سے واقفیت، جدید ترین سائنسی و علمی اکتشافات سے آگاہ ہونا اور اپنی بات نہایت مناسب انداز میں قلم بند کرنا لازمی طور پر سامنے آتی ہیں. ان امور سے صرفِ نظر کرنا محال ہے اور ان کے بغیر کالم نویسی کار بے مصرف.
میری نگاہ میں حافظ محمد زاہد کا شمار ایسے کالم نویسوں میں ہوتا ہے جو درج بالا تمام صلاحیتوں سے مالامال ہیں. ان کے تحریر کردہ کالموں کے عنوانات پر ایک نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ لکھنے والے نا صرف صاحب علم ہیں بلکہ ان کا مطالعہ بھی گہرا ہے. وہ جدید نظریات و تصورات سے بھی آگاہ ہیں اور ان کا طرزِ فکر بھی عالمانہ اور مدبرانہ ہے. وہ خود اپنی زیرِ تبصرہ کتاب ’’روشنی کی کرن‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
’’گردشِ ایام اور بڑھتی ہوئی مصروفیات کے پیشِ نظر میں نے کالم نگاری کی طرف آنے کا فیصلہ کیا. مدیر کے نام خط سے ابتدا کی، پھر روشنی کی کرن کے نام سے کالم لکھنے کا سلسلہ شروع کیا.‘‘
وہ اب تک تین سو سے زائد کالمز لکھ چکے ہیں جب کہ کتاب ’’روشنی کی کرن‘‘ 67 منتخب کالموں کا مجموعہ ہے جنہیں اسلام اور قرآن، قائد اور پاکستان، رشتے اور رویے، سماج اور حکمران، آداب و فرائض اور کتاب دوستی کے تحت مختلف ابواب میں تقسیم کر دیا گیا ہے.
حافظ محمد زاہد کا اسلوب تحریر بھی مختلف رنگ لیے ہوئے ہے. اگر موضوع رشتے اور رویوں سے متعلق ہے یا اسلام اور قرآن کے بارے میں ہے تو ان کا طرز تحریر عالمانہ اور خطیبانہ محسوس ہوتا ہے. اگر وہ سماج، حکمران اور پاکستان کے بارے میں لکھتے ہیں تو تجزیاتی طرزِ فکر غالب دکھائی دیتا ہے. ان کو اپنے خیالات کے اظہار کا ڈھنگ خوب آتا ہے اور وہ موقع محل کی مناسبت سے اشعار بھی اپنے کالمز میں شامل کرتے ہیں جن سے ان کی تحریر مزید نکھر جاتی ہے.
ان کے کالموں کا مقصد جہالت کے اندھیرے دور کرنا ہے. شاید اسی لیے وہ اسے ’’روشنی کی کرن‘‘ کے زیرِ عنوان ضبطِ تحریر میں لاتے ہیں. ان کی کتاب کا نام دیکھ کر مجھ سے یہ اشعار موزوں ہوئے:
ظلمتِ شب کو دور کرتی ہے
دل میں پیدا سرور کرتی ہے
جونہی پڑتی ہے روشنی کی کرن
راہیں روشن ضرور کرتی ہے
(اکبر)
حافظ محمد زاہد کی کتاب کا ایک حصہ ”کتاب‘‘ کے بارے میں لکھے گئے مضامین پر مشتمل ہے. ان کی یہ کتاب تجربہ کاروں، صحافیوں، ادیبوں اور معاشرے کے دیگر اہم اہلِ علم خواتین و حضرات سے سند تحسین پا چکی ہے. مصنف کی ایک مختصر آپ بیتی بھی کتاب کا حصہ ہے جسے ان کی رفیقِہ حیات نے تحریر کیا ہے، جس کے مطالعے سے ان کی علمی جدوجہد سے آگاہی حاصل ہوتی ہے.
میرے خیال میں حافظ محمد زاہد کی ذات اس منبع سے کم نہیں جو روشنی کی کرنوں کو پھیلانے میں ہمہ تن اور ہمہ وقت مصروف عمل ہے. مجھے امید ہے کہ ان کی کاوشیں کامیابی سے ہم کنار ہوں گی اور معاشرے میں روشنی پھیل کر رہے گی.