استاد ایک ایسی شخصیت ہے جو معاشرے میں بکھرے ناتراشیدہ ہیروں کو تراش خراش کر ان کو چمک دمک عطا کرتا ہے، جہالت کے اندھیروں کو دُور کرکے علم کی روشنی پھیلانے میں پیش پیش رہتا ہے. دنیا میں جتنے بھی کامیاب افراد ہیں ان کے پیچھے کسی نہ کسی استاد کی محنت کارفرما ہے. جب کوئی باپ اپنے بچوں کی کامیابی یا ترقی پر فخر کرتا ہے تو وہ دراصل اس کے اساتذہ کرام کی محنت کو فخر سے بیان کر رہا ہوتا ہے.
سالک ادیب بونتی عمری لکھتے ہیں:
”اُستاد ایک چراغ ہے جو تاریک راہوں میں روشنی کے وجود کو برقرار رکھتا ہے۔ اُستاد وہ پھول ہے جو اپنی خوشبو سے معاشرے میں امن، مہرومحبت و دوستی کا پیغام پہنچاتا ہے۔ اُستاد ایک ایسا رہنما ہے جو آدمی کو زندگی کی گمراہیوں سے نکال کر منزل کی طرف گامزن کرتا ہے اور درست راستہ کی سمت بتاتا ہے.‘‘
اسلام نے دنیا کوعلم کی روشنی عطا کی. استاد کو عظمت اور طالب علم کو اعلیٰ و ارفع مقام عطا کیا ہے. نبیِ کریم ﷺ نے اپنے مقام و مرتبہ کو ان الفاظ میں بیان فرمایا: ”مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے‘‘ (ابن ماجہ، 229)
ڈاکٹر حریم طارق نے اپنے استادِ محترم کو ایک منفرد انداز میں خراج تحسین پیش کیا ہے. انھوں نے اپنے استاد محترم کے خطوط، ان کی شخصیت اور خدمات پر لکھے گئے مضامین کو ایک خوب صورت کتاب میں یکجا کر دیا ہے، جس کا نام ”حق ادا نہ کر سکیں گے‘‘ رکھا گیا ہے.
انسان دنیا میں جو رتبہ، عزت و دولت حاصل کرتا ہے، اس میں اساتذہ کرام کا کردار سب سے زیادہ ہوا کرتا ہے. ڈاکٹر حریم طارق مبارک باد کی مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے محسن کو نہ صرف یاد رکھا ہے بلکہ ان کی کاوشوں کا اعتراف بھی کیا ہے. ڈاکٹر صاحبہ کی یہ ادبی کاوش قابلِ ستائش ہے. وہ یقیناً اعلٰی و ارفع شخصیت کی مالک ہیں اور اپنے محسنوں کو یاد رکھنے والی ہیں.
ڈاکٹر حریم طارق ایک مسیحا ہیں. ان کے دن رات مخلوقِ خدا کی چارہ گری میں بسر ہوتے ہیں. وہ بلاشک و شبہ درد دل رکھنے والی خاتون ہیں. ان کا یہ ادبی کارنامہ اساتذہ کرام کی بے لوث خدمات اور ان تھک محنت کا ایک دل آویز اظہار و اعتراف ہے.
ڈاکٹر صاحبہ کی کتاب استاد کی شان میں لکھے گئے بہترین مضامین کا خوب صورت مجموعہ ہے. اس کے علاوہ انہوں نے استاد محترم حبیب الرحمٰن بٹالوی اور طالبات کے مابین خط و کتابت کو اس کتاب کا حصہ بنا کر انہیں ابدی طور پر محفوظ کرنے کی سعی کی ہے. میرے خیال میں یہ اپنے استاد کی نصیحتوں اور ان کے اعلٰی خیالات کو دیگر افراد تک پہنچانے کا قابلِ تعریف طریقہ ہے.
ڈاکٹر صاحبہ نے اپنی کتاب میں استاد محترم کے بارے میں اور عمومی طور پر استاد کے مقام و مرتبے کے بارے میں تحریر کردہ مضامین کو یک جا کر کے ادب میں ایک اچھا اضافہ کیا ہے.
ان تمام محاسن کے ساتھ ساتھ ایک بات جو کچھ گراں محسوس ہوتی ہے وہ اس کتاب میں ان کی دیگر تحریروں کی موجودگی ہے، جو یقیناً اچھے اسلوب تحریر اور فکر و خیال کی خوب صورتی کا قابل ذکر نمونہ ہیں لیکن ان کو ایک علیحدہ کتاب میں شامل کیا جانا زیادہ بہتر ہوتا. یہ کتاب کلی طور پر اگر عظمتِ اساتذہ کرام تک محدود رہتی تو زیادہ بہتر لگتی.
مجموعی طور پر یہ کتاب اپنے اعلٰی اسلوبِ تسوید، ندرتِ اظہار اور مصنفہ و مولفہ کی فکر و نظر کا عمدہ گلدستہ ہے.
تعلیم، تجارت اور خدمتِ ادب: کتاب فروش آن لائن بُک سٹور – حذیفہ محمد اسحٰق
”مشاہیرِ بلوچستان“، پروفیسر سید خورشید افروزؔ کی متاثر کن تحقیق – محمد اکبر خان اکبر
”حسنِ مصر“ سے آشنائی – محمد اکبر خان اکبر
سلمان باسط اور ”ناسٹیلجیا“ کا پہلا پڑاؤ – محمد اکبر خان اکبر
اُردو کے نامور ناول نگار اور افسانہ نویس، منشی پریم چند – آمنہ سعید
نامور ادیب، پروفیسر تفاخر محمود گوندل کا بے مثال حجاز نامہ ”جلوہ ہائے جمال‘‘ – محمد اکبر خان اکبر
ممتاز شاعر اور ادیب، اکرم خاورؔ کی شاعری – آصف اکبر
ممتاز شاعرہ اور افسانہ نگار، فوزیہ تاج کی کی ایک اعلٰی افسانوی تصنیف، ”جل پری‘‘ – محمد اکبر خان اکبر
نامور کالم نگار و افسر تعلقات عامہ محترمہ تابندہ سلیم کی کتاب، ”لفظ بولتے ہیں“ – محمد اکبر خان اکبر
اسد محمد خان، فن اور شخصیت – شہزینہ شفیع