اختر شہاب کا افسانوی مجموعہ، ’’ہم مہرباں‘‘ – سید فیاض الحسن

ملک کے معروف ادیب و افسانہ نگار اختر شہاب کا پر خلوص تحفہ ’’ہم مہرباں‘‘ بذریعہ ڈاک موصول ہوا۔ یقیناً اس خلوص کے اعتراف میں یہ چند سطور ان کی محبتوں کا نعم البدل تو نہیں مگر یہ میری آوازِ دل ضرور ہے.
افسانہ ادب کی نثری صنف ہے، لیکن افسانہ کو کہانی بھی کہا جاتا ہے، جس میں انسانی زندگی کے کسی بھی پہلو کی مختصر وقت و الفاظ میں روداد بیان کی جاتی ہے۔ اس نثری صنف میں طبع آزمائی کرنے والے اختر شہاب نے قاری کو عین مزاج کے مطابق انسانی فطرت، دکھ، بلکہ انسانی مسرت کو نہایت سلیقے اور خوب صورتی سے اجاگر کرتے ہوے پیش کیا ہے۔ لکھنا تو بہت آسان ہے مگر اپنے تخیل کی منظر کشی کرنے کا ہنر ہر کسی کو نہیں ملتا. اختر شہاب نے کمال مہارت سے مختلف موضوعات پر دنیائے ادب کے قرطاس پر اپنے قلم سے جو روشنائی بکھیری ہے اس کا بخوبی اندازہ کتاب ’’ہم مہرباں‘‘ پڑھ کر بآسانی لگایا جاسکتا ہے۔ اختر شہاب کے افسانے جائے اماں، ادھورے مہرباں، دوسرا فیصلہ، ادھورا رشتہ، بڑا بول، عقدِ ثانی، جھوٹن، دورِ جنوں، آج کا مجنوں، زنانہ، صاحب جی، طائر لاہوتی، شق نمبر 18، کرنی کا کرونا، کرنیاں کرونیاں، ہچکچاہٹ اور دوسری قبر جیسے افسانے، افسانوی ادب کا نہ صرف خاصہ ہیں بلکہ اپنے منفرد انداز و اسلوب سے قاری کو وہ راحت مہیا کرتے ہیں جو کہ پڑھنے کے بعد میسر آتی ہے۔مصنف نے اس نثر کی صنف میں قاری کے لیے جو تجسس پیدا کیا ہے کہ اب کیا ہوگا، کیسے ہوگا؟، وہ ہی ان کے افسانوں کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ اس کے علاوہ اختر شہاب نے دلچسپی کے پہلو کو مدِنظر رکھنے کے علاوہ نفسیاتی مسائل اور فطرت انسانی کو بڑی خوب صورتی سے منظر کشی کا لبادہ اوڑھا کر قاری کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے، جو کہ ایک نامور افسانہ نگار کے لیے کسی تحفہ سے کم نہیں ہوتا۔ اختر شہاب کے افسانوں کا بغور مشاہدہ کیا جائے تو یہ بات عیاں ہوگی کہ انہیں اپنے قلم پر مکمل گرفت ہے۔ جذبات کی روانی میں بہے بغیر تحریر کے تسلسل کو اندھیرے کنویں میں نہیں دھکیلتے بلکہ ان کا تخیل جھرنوں کی مانند بہتا ہوا نظر آتا ہے اور قلم پر گرفت ہی ان کا شعار ہے۔
یوں تو اختر شہاب نے اپنے افسانوں میں تخیل کے ساتھ ساتھ فرضی کہانی کو بھی شامل کیا ہے مگر کتاب کے آخر میں حقیقت کا سہارا لیتے ہوئے ماں کی ممتا سے سرشار ہو کر ماں سے محبت کا عملی نمونہ، تحریری شکل میں بھی پیش کیا ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ ’’ہم مہرباں‘‘ کا معنی خیز سرورق کسی ماہر ڈیزائنر یا مصور نے نہیں بلکہ اختر شہاب کی بیٹی، طوبٰی کے تخیل کا شاخسانہ ہے جو کہ کتاب میں تحریر شدہ افسانوں کے عین مطابق اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا ہے۔ جب کہ طباعت و اشاعت میں تیکنیکی آراء و خدمات میں ارسلان مسعود خان، مجتبٰی مسعود خان اور نظر ثانی پر فریدہ مسرور کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے. مزید آمنہ فاروق اور طوبٰی کی محبتوں، محنتوں کا انکار ناقابلِ تلافی عمل ہوگا.
اختر شہاب کی کتاب یہ ’’ہم مہرباں‘‘، افسانہ نگاری میں اپنی علیحدہ شناخت رکھتی ہے اور اُردو ادب کی کہکشاں میں منور ستارے کی مانند اپنی افادیت کا نہ صرف اعتراف کرا رہی ہے بلکہ قاری کی دلچسپی کا باعث بھی بن رہی ہے۔
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ!