عمر فاروق عارفی ایک ایسے سیاح ہیں جن کو وادیاں، نظارے اور دل آویز علاقے خود ہی اپنی جانب بلاتے محسوس ہوتے ہیں کیوں کہ وہ ان وادیوں کے سچے عاشق کے طور پر سامنے آئے ہیں. انہوں نے سیاحت کو ایک مشن میں تبدیل کر رکھا ہے. وہ وادیاں جن کے دامن سیاحوں کے پھیلائے ہوئے کچرے سے آلودہ ہوجاتے ہیں، وہ عمر فاروق عارفی جیسے عارفوں کی راہیں سال بھر دیکھتی رہتی ہیں. عمر فاروق عارفی سیر و سیاحت کے دلدادہ ہیں. اپنی بے شمار پیشہ ورانہ و دیگر مصروفیات کے باوجود ہر سال پاکستان کے خوب صورت گوشوں کی سیاحی کے لیے نکل پڑتے ہیں. ان کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ اپنے سفر کے تجربات، واقعات اور مشاہدات کو ایک عمدہ سفرنامے کا روپ دے کر قارئین کے سامنے پیش کر دیتے ہیں. عارفی صاحب فن تسوید میں ماہرانہ اسلوب کے حامل ہیں. میں نے جب ان کے سفرنامہ ’’سکون کے متلاشی‘‘ کا مطالعہ شروع کیا، تو پڑھتا ہی چلا گیا اور ایک ہی نشست میں بہت سے صفحات پڑھ ڈالے.
عمر فاروق عارفی کا سفرنامہ تخیلات، تاثرات اور واقعات سے لبریز ہے. ساتھ ہی سفرنامہ نگار نے بہت سی معلومات، جو پاکستان کے شمالی علاقوں کی طرف جانے والے سیاحوں کے لیے بہت اہم ہیں، کو سفرنامے کا حصہ بنا کر اسے ایک قیمتی دستاویز کی شکل دے ڈالی ہے. بلاشبہ مصنف کے گہرے مشاہدے کے باعث پاکستان کی وہ خوب صورتی بھی نگاہوں کے سامنے محسوس ہوتی جو عموماً دیگر مسافروں کی نگاہوں سے اوجھل رہتی ہے.
عصرِ حاضر میں جب کہ کتب بینی کا شوق دم توڑتا محسوس ہورہا ہے، عمر فاروق عارفی جیسے مصنفین عوام الناس کا رشتہ کتابوں سے استوار کرنے کی دل و جان سے سعی کر رہے ہیں. ان کا یہ سفرنامہ سادہ، رواں اور عام فہم نثر کی ایک عمدہ تحریر ہے جو قاری کو سفرنامے کے ایک نئے ذائقے سے آشنا کرتی ہے.
خوش آئند امر یہ ہے کہ وطن عزیز کے خوب صورت مقامات کے بارے میں ایک تسلسل سے کافی کچھ لکھا جا رہا ہے جس سے ملکی سیاحت کی صنعت فروغ پا رہی ہے. عمر فاروق عارفی کا سفرنامہ پڑھنے والا یقینی طور پر ان خوب صورت قدرتی نظاروں کے سفر پر مجبور ہو جاتا ہے اور ان مقامات کی سیاحی کا بے پناہ جذبہ محسوس کرتا ہے. یہ بات دعوی سے کہی جا سکتی ہے کہ اُردو ادب میں سفرنامہ نویسی کو جو بھی مقبولیت حاصل ہو رہی ہے اس میں عمر فاروق عارفی جیسے نوجوان مصنفین کا اہم حصہ ہے.
وادی کاغان اور ناران کے دلچسپ سفر پر مشتمل اس رودادِ سفر کے مصنف نے ان علاقوں کی جو منفرد تصویر کشی کی ہے، وہ ان کے فنِ تحریر کی پختگی کی مضبوط علامت ہے. یہ کہا جا سکتا ہے کہ اُردو سفرنامہ نگاری میں عمر فاروق عارفی نے ایک اور طرح کے طرزِ تحریر کی روایت ڈالی ہے اور کم مدت میں اپنی ایک منفرد پہچان بنائی ہے. ان کے سفرنامے میں کئی دل کو چھو لینے والے جملے ملے جیسے…
• زندگی میں کسی کو نیچ سمجھنا ہمارے ذہنی طور پر نیچ ہونے کی دلیل ہے.
• سب سے برا دن وہ ہوتا ہے جب کسی کو آپ کی ضرورت ہو اور آپ اس کی ضرورت پوری نہ کر سکیں.
• ایک کامل مومن کی یہی نشانی ہے کہ وہ نعمت ملنے پر شکر اور چھن جانے پر صبر کرتا ہے.
• دنیا کی اشیاء سے نہیں انسانیت اور رشتوں سے پیار کریں.
کتاب میں درج کیے گئے ابواب کے عنوانات بھی قاری کی توجہ حاصل کرنے والے ہیں، ذرا ملاحظہ کیجیے:
* ارادے جن کے پختہ ہوں
* ٹھنڈے پانی والی گرم مچھلی
* جنگلی شہزادی کا امتحان
* دبدبے والی جھیل کے کنارے
* سبزے کی گود میں
عارفی صاحب اور ان کے ساتھیوں کی تفریحی سفر کے دوران پابندی نماز قابل تقلید عمل ہے. جی چاہتا ہے کہ ان کے گروپ کے ہمراہ پہاڑوں کے سفر پر نکلا جائے اور قدرت کے نظاروں میں کھو کر سکون تلاش کیا جائے.