یہ مرے ساتھ کون چلتے ہیں
جب سفر کرتا ہوں تری جانب
راستے میں چراغ جلتے ہیں
ثلاثی غزل سے شہرت حاصل کرنے والے معروف شاعر عالم انصاری (مجید راہی)، نامور گلوکار عارف انصاری کے تایا ابو (بڑے بابا) تھے. عالم انصاری، حیدرآباد میں 36 سالہ ادبی خدمات و جنون شاعری میں اتنے مصروف رہے کہ انہیں کتاب کی اشاعت کے مواقع ہی میسر نہ آ سکے. آپ کے بکھرے ہوئے موتیوں کو سمیٹ کر کتابی شکل میں ’’چراغ جلتے ہیں‘‘ کے عنوان سے شائع کرنے کا سہرا آپ کے بھتیجے عارف انصاری کے سر ہے.
اس کتاب کی پہلی تقریبِ رونماٸی آٸیڈیل جرنلسٹس گروپ کے زیرِ اہتمام حیدرآباد پریس کلب میں اختر علی اختر اور آفتاب عالم قریشی نے منعقد کی تھی جس کی صدارت دنیائے اُردو کے نامور شاعر اور پاکستان میں ثلاثی کے اولین شاعر حمایت علی شاعر نے کی تھی۔ ان دنوں عالم انصاری شدید علیل تھے. تقریب سے ایک دن قبل ہی وہ اسپتال سے گھر آئے تھے اور تقریب کے انعقاد کے دوسرے دن ہی طبعیت کی خرابی کے باعث دوبارہ ہسپتال داخل ہوئے اور انتقال کرگٸے۔ یہ تقریب حیدرآباد کی شاندار ادبی تقاریب میں شمار کی جاسکتی ہے اور آج تک اس کے نقوش ذہن سے اوجھل نہ ہو سکے ہیں.
حمایت علی شاعر نے عالم انصاری کی کتاب ’’چراغ جلتے ہیں‘‘ پر اپنا تبصرہ یا تاثرات لکھے، اس کے بعد کبھی کسی کتاب کو یہ شرف حاصل نہ ہو سکا. نام و نمود سے دور اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گوشہ نشینی میں گزارنے والے عالم انصاری کی غزلوں میں کہیں پیچیدگی نظر نہیں آتی کیوں کہ آپ کی شاعری میں، فارسی اور عربی سے مرعوب ہوئے بغیر، انسانی جذبات و محسوسات کی عکاسی نہایت نفیس انداز میں کی گئی ہے اور پڑھنے والے کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ اس ہی کی داستان ہے.
عالم انصاری نے شاعری کی اہم صنف غزل کے ساتھ ساتھ، ثلاثی میں بھی طبع آزمائی کی ہے اور اپنی ادبی زندگی کا بیشتر حصہ انہوں نے ثلاثی کے لیے وقف کیا، سو آج ان کی وجہ شہرت بھی ثلاثی ہیں. ثلاثی تین مصرعوں پر مشتمل ہوتی ہے جو مثلث سے ماخوز ہے، اگر یہ کہا جائے کہ اردو شاعری میں ثلاثی کا فقدان رہا ہے تو بے جا نہ ہوگا جب کہ اس فقدان کے خلا کو پر کرنے کے لیے جاپانی صنف سخن ہائیکو اور پنجابی زبان کی صنف ماہیہ سے مسفید ہوا جاتا ہے.
شاعر و ادیب فخرالدین کیفیؔ اپنی کتاب ’’تُک بندیاں‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ”سہہ مصرعی ہائیکو، جاپان سے آتے آتے کبھی ثلاثی ہوئی تو کبھی تثلیث اور یوں تک بندی میں آکر سہ مصرع بن گئی‘‘
اگر عالم انصاری کی غزلوں پر غور کیا جائے تو دھمیے درد کی لہر سی محسوس ہوتی ہے لیکن شاعر نے کبھی بھی مایوسی کے عنصر کو غالب آنے نہ دیا. عالم انصاری نے شاعری پر انحصار نہیں کیا بلکہ اسے اپنے احساس و جذبات کے اظہار کے لیے استعمال کیا ہے. انہوں نے اپنی بیشتر ثلاثیاں اپنے تاثر اور کیفیات کے اعتبار سے پر معنی کہی ہیں، جیسے:
ہر عہد کا یہ عنوان بنیں
یہ نظمیں غزلیں شعر مرے
شائید کے مری پہچان بنیں
————————–
کس لیے راستہ بدلتا ہے
چھٹنے والی ہے دُھند موسم کی
دن زرا دیر سے نکلتا ہے
————————–
تیرگی میں اک دیا جلتا رہا
تو نہیں آیا تو کوئی غم نہیں
ذکر تیرا دیر تک چلتا رہا
یہاں یہ امر وضاحت کے قابل ہے کہ عالم انصاری نے اپنی شاعری کے حوالے سے کسی بھی قسم کا کوئی دعویٰ نہیں کیا اور نہ ہی فکر و اسلوب کے نئے پن کی بات کی بلکہ انہوں نے کہا کہ:
عالم ترے کلام میں ندرت کہاں ابھی
تو بھی سنا رہا ہے فسانہ سنا ہوا
آج کل اس انکساری اور سچائی کو کون اختیار کرتا ہے. عالم انصاری کی ثلاثی اور غزلیں پڑھ کر شاعر کی فکر و تخیل کا اندازہ بآسانی اور بخوبی لگایا جاسکتا ہے.