ممتاز شاعر، طاہرؔ حنفی کا چوتھا مجموعہ کلام، ’’یرغمالِ خاک‘‘ – شبانہ کریم

ڈاکٹر محمد حسن کہتے ہیں ”سچی شاعری کھرے سونے کی طرح کم یاب ہے اور روح عصر کو آواز اور جذبے میں سمونا لازم ہے۔‘‘
اس بات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ حنفی صاحب نے اپنے دل کے لہو سے اپنی شاعری کو مزین کیا ہے اور لطیف استعارات و مثالوں سے سجا کر اسے پیش کیا ہے اور ان کی یہی رنگ آمیزی ان کی شاعری میں نازک جذبوں کے پروں کی طرح پھیل گئی ہے۔

کرلوں گا میں کنارہ کشی ہر نگاہ سے
کردے نگاہِ یار فدا یرغمالِ خاک
تا عمر دیکھ پائے نہ دنیا کی روشنی
طاہرؔ کو اس طرح نہ بنا یرغمالِ خاک

مجموعہ کلام ’’یرغمالِ خاک‘‘ اپنی مثال آپ ہے۔ عنوان کا احاطہ کرتی ہوئی شاعر کی غزل یرغمال خاک پڑھ کر ہی اندازہ ہو جاتا ہے:

کر میرے واسطے تو دعا یرغمالِ خاک

سب کچھ خاک میں ہی مل جائے گا، انسان کی اصل حقیقت خاک کا پیرہن ہی ہے۔ غزل جو کس دشت غزالاں کی پھولوں کی شہزادی ہے اس کی فنی اہمیت کو مختلف شعراء کی طرح حنفی صاحب نے بھی سمجھا اور زندگی، شاعری اور فن، سب کو ایک رشتے سے منسلک کر کے پیش کیا۔ شاعر کے ہر شعر میں مشاہدہ قوت اور تجربات کی گہرائی نظرآتی ہے:

ہمارے دل میں جو ہوگی، وہی چہرے پہ ہوتی ہے
ہمیں کرنی نہیں آتی، اداکاری نہیں کرتے

مجھ کو دنیا سے کوئی غرض اب نہیں
اے خدا بس تیرا آسرا چاہیے

قدم قدم پر وحشت کا بھی قبضہ ہے
کتنے مار کے پھینکے جاؤ گے شیطان

زندگی کے بعض پہلوؤں کو انہوں نے اس طرح اجاگر کیا ہے کہ لگتا ہے اس موقع پر ان کا قلم ایک مصور کا قلم بن کر سامنے آیا ہے۔ انہوں نے فکر کے رنگوں سے اپنے ہر شعر کو زندگی بخش دی ہے۔

کہ درد حد سے گزرتا ہے میرا جب بھی کبھی
لپٹ کے روتا ہوں طاہرؔ کسی ستون کے ساتھ

تجھ پر کھلیں گی درد و اذیت کی سب رتیں
تو بجرتوں کی رات میں تشکیل ہوکے دیکھ

پہلے انا رہی تھی سدا ساتھ میرے
یہ اب آرزو ہے ساتھ مرے مصلحت رہے

زنداں میں رہ کر بھی ہم لوگ
اکثر ہنستے رہتے ہیں

کہہ رہے ہیں پاوں کے یہ آبلے
دو گھڑی کو بیٹھ سستانے بھی دے

پلٹ آو تو بہتر ہے
ابھی کچھ سانسیں باقی ہیں

طاہرؔ حنفی کی کتاب ’’یرغمالِ خاک‘‘ ایک شہکار درجہ رکھتی ہے اور یہ ثابت کرتی ہے کہ طاہرؔ حنفی ایک نغمہ گر اور جذبے کے شاعر ہیں. ان کی شاعری بے شمار خوبیوں کا مرقع ہے. ساتھ ہی ان کی شاعری میں نفسیاتی شعور بھی موجود ہے۔

تھک چکے ہیں ہواؤں سے لڑتے ہوئے
ٹمٹماتے دیوں کو بقا چاہیے

اور یہ حقیقت بھی ہے کہ جس شاعر کے غم میں زمانے کا غم شامل ہوجائے تو اسے معمولی نہ سمجھا جائے بلکہ یہ ایک خوبی اور بڑی بات ہوتی ہے اور یہی خوبی شاعرانہ حیثیت کو متعین کرنے کے لیے کافی ہے۔

اداسی، بےبسی، بےچارگی جن میں اذیت ہو
یہ منظر جب نظر آئیں، ہمیں جھنجھوڑ دیتے ہیں

مجھے تو طاہرؔ حنفی کی شاعری جذبہ فکر سے ہم آہنگ محسوس ہوتی ہے اور یہی لطیف ہم آہنگی غزل کی وجدانی کیفیت کو نکھار دیتی ہے۔

وہ اپنی کھوپڑی
چند سکوں کے عوض
گروی رکھ کر
”خوراک‘‘ لے آیا ہے
کیوں کہ بیوپاری نے
اس کے جثے میں سے
صرف کھوپڑی کو
یہ کہہ کر خریدا
ہمارے ویئرہاؤس میں
اس کا زیادہ بھاؤ ہوگا
ورنہ کسی ہوم لیس (homeless) کی طرح
اس کو کوئی
ٹھوکر بھی نہ مارے
اپنی ”میں‘‘ میں گم دنیا والو
سبق ہاں سبق

فغاں کی رنگینی، سوز کی سادگی، انداز کا طنطنہ، سلاست و حقیقت نویسی شاعری کی شان کو بڑھا دیتی ہے۔ طاہرؔ حنفی کی نظموں اور غزلوں کو پڑھ کر ہر قاری یہ محسوس کر سکتا ہے۔

کتنا ظالم سماج ہے
زر سے زمین تک
ہر ایک شے میں
حصہ مانگتا ہے
لڑنے مرنے کو تیار
مگر دکھی دل کی
آہ و بکا اور
درد و الم
کے سمندر کا
بٹوارہ کوئی بھی اپنانے اور
پسند کرنے کو تیار نہیں

عشقیہ شاعری کا عطر یا جوہر کہہ لیں یہ خوبی بھی طاہرؔ حنفی کی شاعری میں موجود ہے۔

اترا ہے چاند آنکھوں میں، تو جھیل ہوکے دیکھ
ترسی ہوئی زمین کی تکمیل ہوکے دیکھ

اس نے ہاتھوں میں سدا رکھا تھا ہاتھ
اس نے کی تھی مہربانی دور تک

میرے خیال میں طاہرؔ حنفی ایک پختہ اور بالغ النظر شاعر ہیں، انہوں نے اپنی شاعری میں تمام موضوعات کو نہ صرف شامل کیا ہے بلکہ رخ منظومات، قبضہ مافیہ، ادھوری ملکیت، سونامی، خودپسند، بہکاوا وغیرہ.
حنفی صاحب نے بھی اپنے عہد کے انتشار، گھٹن اور بے اطمینانی کی تصویر کشی کی ہے، ان کی تصویریں متحرک اور جاندار ہیں۔ انسان کی زندگی نشیب و فراز سے پُر ہے اور ہر کسی کو اس سے واسطہ پڑتا ہے۔ شریک حیات کی جدائی، زمانے کی تلخیاں ان کی شاعری میں درد کی کیفیت پیدا کرتے ہیں لیکن اس سے فائدہ شاعری کو ضرور پہنچتا ہے۔ ان کے کلام میں نکھار اور درد انگیزی کا عنصر بدرجہ اتم موجود ہے۔

فکر و درد و الم سے ملے گی نجات
جاکے سونا ہے جس روز مٹی تلے

اب ہیں طاہرؔ سفر میں میرے ساتھ
درد و غم کے اذیت بھرے قافلے

میں نے بچپن میں خواب دیکھے تھے
میرے پچپن میں خواب ٹوٹے ہیں

درد اس طرح گھل گیا ہے، خوں میں کچھ اس طرح
اس کو اب حاجت نہیں ہے آنسوؤں کے زہر کی

آخر میں یہی کہنا چاہوں گی کہ حنفی صاحب ایک ایسا دل رکھتے ہیں جس میں شاعرانہ لطافت و نزاکت کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ ان کا تخیل خارجی اور باطنی فضا سے مستعار لیتا ہے اور غزل یا نظم میں ڈھل کر ان کی اپنی چیز بن جاتی ہے۔ وہ چلتے پھرتے انسانوں کے دِلوں میں بیٹھ کر دل کا حال لکھتے ہیں۔ اللّٰہ رب العزت ان کے اس فن کو سلامت رکھے اس میں مزید ترقی عطا کرے، آنے والے وقتوں میں ان کی اس طرح کی اور کتابیں ادب کے خزانے میں اضافہ کرتی رہیں اور شیفتانِ ادب کی روح کو مسرور اور معطر کرتی رہیں، آمین.