آج ہمارے زیرِ مطالعہ کتاب معروف ادیب و افسانہ نگار اختر شہاب کا 18 افسانوں پر مشتمل مجموعہ ’’من تراش‘‘ ہے. اس کتاب میں موضوعاتی اعتبار و معاشرے کو درپیش مسائل پر اختر شہاب نے اپنی طبعیت کے رنگوں میں غوطہ زن ہوکر افسانوں کی صورت میں ذہنی و فنی جوہر دکھلائے ہیں. یقنناً یہ قابل تحسین تخلیق ہے.
’’من تراش‘‘ کے سرورق کو بغور دیکھا جائے تو اس کا مقصد واضع نظر آتا ہے کہ من کو تراشنے یا بدلنے والا اوپر بیٹھا ہے، جو کبھی سجدے میں ملتا ہے اور کبھی من میں ڈوب کر. گہرائیوں میں جا کر اس ٹائٹل کے ذریعے یہ باور کرایا گیا ہے کہ تخیلاتی عکاسی میں، آسمان سے منعکس ہوکر زمین پر پڑنے والی روشنی من کو تراش کر حقیقی عشق میں مبتلا کر دیتی ہے اور یوں انسان کا من تراش دیا جائے یا بدل دیا جائے تو وہ عشقِ حقیقی میں ڈوب جاتا ہے. اس انوکھے تخیل کے حامل ٹائٹل کو بنانے کا سہرا بھی اختر شہاب کے سر جاتا ہے.
اختر شہاب کے افسانے من تراش، صبح تمنا، شارٹ کٹ، بے بسی، بے حسی، یقینِ کامل، بنتِ حوا، اب کہاں جاؤں، بڑی امی، آئی لو یو، تھکن، جلاد، قبولیت، کلنکنی، لمحہ جاں کسل، مرد کا بچہ، چلمنی، کارا، حق شفعہ، وغیرہ میں سنجیدگی کے علاوہ کسی بھی لاچار غریب انسان کی مدد اور انسانی خدمات کو واضع طورپر اجاگر کرکے افسانوی انداز میں ایک مخصوص سبق بھی دیا ہے. یہ افسانے سماجی و معاشرتی سوچ کے عکاس ہیں جو کہ مختلف سبق لیے ہوئے ہیں. ان افسانوں میں انسانوں کے لیے مختلف پیغام بھی ہیں مثلاً ایک پیغام یہ کہ اگر انسانوں کی بروقت مدد کی جائے تو ان کو بھکاری بننے سے کیسے بچایا جا سکتا ہے. اس کے برعکس، قابلِ ترس افراد کی مالی امداد کی جائے اور وہ اس کا ناجائز فائدہ حاصل کریں، امداد کرنے والے کو کم عقل سمجھیں اور اسے اپنی عادت میں شامل کرنے والوں پر مدد کے دروازے کس طرح بند ہو جاتے ہیں، وغیرہ وغیرہ.
’’من تراش‘‘ میں مصنف کی جانب سے اس موضوع کو بھی بڑی باریک بینی سے اپنے لفظوں سے اجاگر کیا گیا ہے کہ صاحبِ حثیت افراد کو اگر اللہ بِن مانگے دے رہا ہے اور وہ اللہ کے نام پر مانگنے والوں کی مدد صرف اس بناء پر کر رہے ہیں کہ یہ تو محض اللہ کے نام پر مانگ رہا ہے، خواہ اسے ضرورت ہو یا نہ ہو جب کہ ہمیں تو بن مانگے سب کچھ ملا ہے، جیسے موضوع کو افسانوی طور پر روشناس کرا نے میں بھی اپنے قلم کو رواں رکھا گیا ہے. اختر شہاب نے زبان کے تلوار جیسے تیز الفاظ کے بجائے آنکھوں سے محبت اور نفرت کے اظہار کو مؤثر طریقے سے لفظی لباس پہنا کر افسانہ کو حقیقت کا روپ دیتے ہوئے اس معاشرتی اہم پہلو کو من میں اتارنے کی کوشش کی ہے. اور یقنناً اختر شہاب کسی حد تک اپنے اس مقاصد میں کامیاب ہوتے نظر آئے ہیں.
’’من تراش‘‘ کے مختصر افسانے اپنی افادیت و معاشرتی کہانیوں کے اعتبار سے افسردگی، سنجیدگی، ضررورت مند کی حاجت، صلہ رحمی، رحم دِلی اور سخاوت کے عناصر کی جھلک سے نمایاں ہیں.
