محمد اکبر خان اکبر کا سفرنامہ سری لنکا، ’’جادونگری میں اذان‘‘ – جاوید اختر چودھری

فیس بک پر جہاں غیر مہذب اور بدتمیز لوگوں سے پالا پڑا وہاں نفیس، با اخلاق اورمہذب خوا تین و حضرات سے ملنے اور غائبانہ دوستی کا اعزاز بھی حاصل ہوا. ان باشعور مخلص اور مہذب حضرات میں ایک نیک نام پروفیسر محمد اکبر خان اکبر بھی ہیں. پروفیسر محمد اکبر خان اکبر کوئٹہ کے رہائشی ہیں. ایک کالج میں پڑھاتے ہیں اور درس و تدریس کے ذریعے علم و ادب کی روشنی پھیلاتے ہیں کہ احساس محرومی اور قومی زیاں کو صرف اور صرف نئی نسل کو تعلیم اور آگہی دینے سے ہی دور کیا جاسکتا ہے. بلاشبہ محمد اکبر خان اکبر اور ان کے ساتھی بلوچستان میں امید کی کرن ہیں.
بقول پروفیسر صاحب، جب کالج میں چھٹیاں ہوتی ہیں تووہ سیر و سیاحت کا پروگرام بناتے ہیں اور شہر شہر، ملک ملک گھومتے اور زندگی سے بھرپور لطف اٹھاتے ہیں اور اپنے چاہنے والوں کو اپنے خوش گوار لمحات اور احساسات میں شامل کرتے ہیں. اپریل 2022ء میں پروفیسر صاحب کا سفرنامہ ’’جادونگری میں اذان‘‘ موصول ہوا. کتاب پڑھتا رہا اور ان کی فراہم کردہ معلومات سے استفادہ حاصل کرتا اور محظوظ ہوتا رہا. واقعی یہ سفرنامہ سری لنکا کااچھوتا سفرنامہ ہے. یہ ان کے مشاہدات، احساسات اور واردات قلبی کا حسین گلدستہ ہے. اس سفرنامے میں فطری مناظر کی خوب صورت عکاسی کی گئی ہے.
’’جادونگری میں اذان‘‘ سفرنامہ اسلوب کے لحاظ سے ایک معلوماتی عمدہ نگارش ہے. پروفیسر صاحب نے سری لنکا کی تاریخی جغرافیائی سیاسی اور اور معاشرتی معلومات کا خوبصورتی سے احاطہ کیا ہے. سفرنامے کے مطالعے سے معلوم ہوا اور خوشی ہوئی کہ جب جب ان کے کانوں میں اذان سنائی دی یا ان کی آنکھوں کے سامنے مسجد نظر آئی تو ان کے قدم بے اختیار اس جانب چل پڑے. مسجد میں نماز کی ادائیگی کے بعد مسجد کی تعمیر اور اس کی تزئین و آرائش سے متعلق تمام دستیاب معلومات سے آگاہ کیا. یوں پروفیسر صاحب نے اسلام سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کیا ہے. اسلام سے گہری وابستگی سفرنامے کے عنوان ’’جادونگری میں اذان‘‘ سے بھی عیاں ہے.
یہ سفرنامہ پڑھتے ہوئے احساس ہوا کہ میں ان کے ساتھ ساتھ سری لنکا کے بازاروں، تاریخی مقامات، مندروں اور ساحلوں کی سیر کر رہا ہوں. سری لنکا کے ساحلوں کے خوب صورت مناظر کی عکاسی، مقامی لوگوں کے اخلاق اور ارزاں سیاحتی سہولتوں کے بارے میں پڑھ کر سری لنکا کی سیاحت کا شوق پیدا ہوا ہے. دیکھیے آرزو کب تکمیل کے مراحل طے کرتی ہے.
طالب علمی کے زمانے میں 1954ء /1953ء نصاب کی کتاب ”تاریخِ ہندوستان‘‘ میں کوروؤں، پانڈوؤں اور تاریخ انگلستان میں انگریزوں کی تاریخ کے بارے میں پڑھا تھا. اب مجھے حیرت ہوتی ہے کہ پاکستان بننے کے بعد اسلامی تاریخ پڑھانے کے بجائے تاریخ ہندوستان اور تاریخ پاکستان پڑھانے کی کیا تک تھی. تاہم جو بھی پڑھا تھا، مدت ہوئی طاق نسیاں ہو چکا تھا. مذکورہ بالا سفرنامہ پڑھ کر کچھ کچھ یاد آرہا ہے اور سری لنکا کے بارے میں معلومات میں اضافہ بھی ہوا ہے.
’’جادونگری میں اذان‘‘ پڑھتے ہوئے مجھے اپنا ایک رفیقِ کار ستنام سنگھ یاد آیا. ستنام سنگھ کو سارا سٹاف ایک معصوم اور سادہ لوح سمجھتا تھا. یہ غالباً تیس پینتیس برس پہلے کی بات ہے کہ ایک دن ستنام نے بتایا کہ وہ اگلے ہفتے ہانگ کانگ سیر کے لیے جارہا ہے. میں نے یہ بات لاف زنی سمجھی کیوں کہ وہ تو کبھی برمنگھم سے باہر نہیں گیا تھا اور ہانگ کانگ تو سات سمندر دور تھا، بہرحال ستنام سنگھ ہانگ کانگ گیا.
واپسی پر جب اس نے بتایا کہ اس نے صرف ہوائی جہاز کا کرایہ ادا کیا. رہائش، طعام اور بیش قیمت شاپنگ پر ایک پنس بھی خرچ نہیں ہوا تو مجھے حیرت ہوئی. آپ بھی اس کی تفصیل سنیں. ستنام سنگھ نے ہانگ کانگ پہنچتے ہی گوردوارے کا پتا معلوم کیا. اپنا سفری سامان رکھا اور گوردوارے کی سیوا کی اور پھر ہانگ کانگ شہر کے پیدل سفر پر چل پڑا. اب اس کا یہ معمول تھا کہ صبح مفت ناشتے کے بعد دوپہر تک خوب گھومتا پھرتا. بھوک لگتی تو واپس گوردوارے پہنچ جاتا. لنچ کرتا اور پھر سیاحت کے مزے لوٹتا. مہنگے ترین شاپنگ مال جاتا، من پسند چیزیں دیکھتا، ٹرائی کرتا اور شاپنگ مال سے باہر آجاتا. بقول ستنام سنگھ اس نے ہزاروں پونڈ کی ونڈو شاپنگ کی تھی. ساتھی اس کا مذاق اڑاتے لیکن اس نے کسی کی بات کا برا نہیں مانا تھا، وہ اپنی ہٹ کا پکا تھا.
اس سفرنامے سے معلوم ہوا کہ سری لنکا بھی ہندوستان کی طرح غیر ملکی آقاؤں کے زیر تسلط رہا. سری لنکا میں بھی ہندوستان کی طرح پہلے پرتگالی، ولندیزی اور پھر انگریز حکمران رہے. وکرما راجا سنہا کی ڈھائی ہزار سالہ قدیم بادشاہت کا پڑھ کر مغلیہ خاندان کے عروج و زوال کی تاریخ نے ذہن پر دستک دی، رہے نام اللہ کا.
قلم کار اور اس کی ادبی کاوش کا رشتہ انمٹ اور قابل فخر امتزاج ہے. مجھے اس سفرنامے میں پروفیسر اکبر خان کی شخصیت کا عکس قدم قدم پر دکھائی دیا ہے. میں پروفیسر صاحب سے کبھی نہیں ملا ہوں البتہ وٹس اپ پر تین چار بار بات کرنے کا موقع ملا ہے. ان سے گفتگو اور اس سفرنامے سے جو نقشہ میرے ذہن میں ابھرا ہے، وہ ایک ایسے شخص اور قلم کار کا ہے جو نہایت سادہ، روادار، انسان دوست، ہمدرد، مخلص اور شرافت و شائستگی کا مجسم ہے.

(تبصرہ نگار برطانیہ میں مقیم ایک معروف افسانہ نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں.)

محمد اکبر خان اکبر کا سفرنامہ سری لنکا، ’’جادونگری میں اذان‘‘ – جاوید اختر چودھری” ایک تبصرہ

تبصرے بند ہیں