فارحہ ارشد کا اولین افسانوی مجموعہ، ’’مونتاژ‘‘ – محمد اکبر خان اکبر

فارحہ ارشد کے اولین افسانوی مجموعے ’’مونتاژ‘‘ کے منظر عام پر آنے سے قبل ہی ان کا نام اردو کے افسانوی ادب میں معروف ہو چکا تھا اور مختلف ادبی جرائد میں تواتر سے شایع ہونے والی ان کی تحریروں نے پہلے ہی دھوم مچا رکھی تھی. مصنفہ کے افسانوی مجموعہ کو آتے ہی جو پذیرائی ملی ہے وہ فی زمانہ ہر ایک کے حصے میں نہیں آیا کرتی. فارحہ ارشد کے اس مجموعے میں شامل بائیس کے بائیس افسانے موضوعاتی تنوع اور انفرادیت کا گہرا تاثر قائم کرتے محسوس ہوتے ہیں.
مصنفہ لکھتی ہیں کہ ”لکھنے والے ٹائم اینڈ سپیس سے کہانی بس ذرا سی اوپر اٹھا لیں تو بہت سی باتیں ہر دور میں وہی ہیں، بس کہنے کا ڈھنگ آنا چاہیے.‘‘
فارحہ ارشد ٹائم اینڈ سپیس سے کہانی اوپر اٹھانے میں کامیاب رہی ہیں، اس لیے ان کے افسانوں میں ایک نیا پن، اپنا گہرا رنگ جماتا معلوم ہوتا ہے. فارحہ ارشد کے افسانے مختصر ہونے کے باوجود گہرائی اور وسعت لیے ہوئے ہیں. ’’مونتاژ‘‘ کے اکثر افسانوں میں مزاحمتی عنصر کی چھاپ نمایاں طور پر دیکھی جا سکتی ہے. وہ سماج میں سرایت شدہ جبر، ناانصافی، بے اعتدالی، بے التفاتی، بے اعتنائی کو بے باکی سے پیش کرتی ہیں. غالباً ان کا گہرا مشاہدہ اور ان کی حساس طبعیت انہیں سماجی استفادے میں اپنے ہم عصر فکشن نگاروں سے آگے لے جاتی ہے.
فارحہ ارشد اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اثر انگیزی کی جو بساط بچھاتی چلی جاتی ہیں، وہ قاری کو ایک سحر انگیز دنیا سے روشناس کرواتی معلوم ہوتی ہے. فارحہ ارشد کے افسانے اسلوب کے اعتبار سے سادگی، روانی اور سلاست سے آراستہ ہیں. جو ہمارے عمومی معاشرتی رویوں اور عدم مساوات کے مناظر کی لاجواب منظر کشی کرتے ہیں. ان کی تحریر میں جو شگفتگی اور برجستگی ہے، وہ کہانی کی بنت میں کمال پیدا کر دیتی ہے. ان کے افسانے معاشرے میں پنہاں کرب کی حقیقی عکاسی کرتے ہیں اور مختلف انسانی کیفیات کو عمدگی سے بیان کرتے ہیں.
فارحہ ایک اعلٰی افسانے کے تمام تر اجزاء ترکیبی کا استعمال، حسن خوبی سے کرتی ہیں. ان کے افسانوں میں واقعات کی ترتیب اور مضبوط پلاٹ کی موجودگی قاری کو تخلیق کار کا ہم سفر بنا دیتی ہیں.
ان کے افسانے پیچیدگی اور الجھاؤ سے مبرا ہیں. وہ داخلیت اور خارجیت کے ٹکروا اور کہانی کو ایک تسلسل سے آگے بڑھاتی ہوئی منطقی انجام تک پہنچاتی نظر آتی ہیں. مصنفہ کردار نگاری میں کئی زاویوں سے بہت اعلٰی روشنی ڈالتی ہیں اور ان کے افسانوں کے کردار مختلف روپ میں جلوہ نما ہوتے ہیں. وہ کفایت لفظی سے اپنے کرداروں اور ان کی شخصیت واضح کرتی ہیں.
”توبہ سے ذرا پہلے‘‘ ہمارے معاشرے کی سچی اور کھری تصویر کشی ہے جو سماجی رویوں سے تخلیق شدہ ہے. اس افسانوی مجموعے میں شامل ڈھائی گز کا کمبل، دس گھنٹے کی محبت، دنانیر بلوچ، ننگے ہاتھ، آدھی خودکشی ،امیر صادقین تم کہاں ہو، اور حویلی مردار کی ملکہ سب کے سب پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں. آپ کو ان افسانوں میں الفاظ و تراکیب کا بھرپور اور نپا تلا استعمال، فکر و تخیل کی بلندی، اعلٰی اورروزمرہ کی بول چال میں لکھی باتیں قاری کی توجہ مرکوز رکھتی دکھائی دیں گیں.
فارحہ ارشد کے افسانوں میں معاشرے کے طبقاتی غرور کا عکس بھی محسوس ہوتا ہے اور اس سے منسلک ظلم و ناانصافی کا دکھ بھی اپنا اثر دکھاتے معلوم ہوتے ہیں. ان کی ایک اور خوبی خواتین کے مختلف کرداروں ان کے سماجی، تہذیبی اور ثقافتی عناصر کو معنویت سے بیان کرنا ہے. مصنفہ کا فن یقیناً قابلِ داد اور قابلِ شتائش ہے. معاصر فکشن نگاروں میں ان کی ادبی حیثیت بلاشبہ ممتاز ہے.