معروف ادیب و شاعر محمد عزیز سائر کے درد بھرے احساس کا مجموعہ، ’’مقامِ فکر!‘‘ – سید فیاض الحسن

افضل ہے تو عالم میں یہ رب کا ہے فرمان
عظیم ہے یہ رتبہ اس رتبے کو تو پہچان
اٹھ جاؤ غلاظت سے اگر ہو مسلمان
پھر دشت و سمندر میں برپا کرو طوفان
جلوے اپنے دوبارہ سائر کو دکھا دو
جو راز ان سے پنہاں ہے اسے خوب سمجھا دو

پاکستان کے سر سبز و شاداب، شمالی مغربی حصے خیبر پختونخوا میں اردو ادب کو پروان چڑھانے میں مصروف عمل، بو نیر کے شہزادے، محمد عزیز سائر نے بذریعہ ڈاک اپنی کتاب تحفتاً علمیت میں اضافہ کی غرض سے ارسال کی. عزیز سائر کی پہلی کتاب اپنی مادری زبان پشتو میں ”احساس‘‘ کے عنوان سے جب کہ دوسری کتاب ”مقامِ فکر!‘‘ کے نام سے اردو زبان میں شائع ہوئی. آپ کی تیسری کتاب، ”فائیز المرام‘‘ تکمیل کے مراحل میں ہے. مصنف کو کتاب بینی کا شوق ہے اور علم کے حصول کے لیے آپ نے جہاں دیگر کتابوں کا مطالعہ کیا، وہاں پروفیسر اظہار حیدری کی کتاب ”آئینہ اظہار‘‘ کو بڑی دلجمعی کے ساتھ بھی پڑھا ہے اور اس کتاب سے متاثر ہوے بغیر نہ رہ سکے.
پاکستان کے مردم خیز صوبہ خیبرپختونخوا نے پاکستان کو بڑی بڑی شخصیات سے نوازا ہے جن میں شاعر، ادیب، سیاست دان، دانشور و دیگر بے شمار ہستیاں‌ شامل ہیں. اس صوبے میں اردو ادب کو فروغ دینے، اسلامی ادب کو قرآن و حدیث کے دلائل کی روشنی میں اجاگر کرنے اور کتاب کو اردو زبان میں شائع کرنے میں عزیز سائر کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا. ان کی ادبی خدمات، دین سے اپنائت کا اظہار اور مسلسل مطالعہ کی عادات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں جس کا واضح ثبوت ان کی کتابیں پڑھ کر بخوبی لگایا جاسکتا ہے. آج کے فتنہ کے دور میں ان کی کتاب ”مقامِ فکر!‘‘ ہمارے لیے واقعی فکر کا مقام ہے. تمام موضوعات پر مصنف تاریخی، مذہبی، سیاسی اور قرآن و حدیث کی روشنی میں اپنے سادہ انداز میں جو احاطہ تحریر میں لائے ہیں، وہ یقنناً قابلِ ستائش ہے.
مصنف و مؤلف عزیز سائر نے اپنی کتاب ”مقامِ فکر!‘‘ میں موجودہ دور میں مسلمانوں کے ذوال کا بغور مشاہدہ کیا ہے بلکہ ان کو نمایاں کرکے قاری کے سامنے کتاب کی شکل میں پیش کیا ہے. آج کے ان نام نہاد مسلمانوں پر جنہوں نے اپنے اصل مقاصد سے انحراف کرتے ہوئے اپنی اپنی ذمہ داریوں کو پس پشت ڈال کر قوم پرستی، لالچ، ہوس، کا شکار ہو کر مسلمانوں کے لیے کلنک کا ٹیکہ ثابت ہو رہے ہیں، ان کے لیے یہ کتاب بہت اہمیت کی حامل ہے. اسلامی ادب میں عزیز سائر کی اس کاوش اور تراش کے بعد ہیرے کی شکل میں جاذب نظر بناکر اسے مذہب سے دوری، فرقہ بندی، مسلک کی جنگ، علم حکمت، قران و حدیث کی روشنی میں موتیوں کی لڑی میں یکجا کرکے پیش کیا ہے، وہ قابلِ تحسین ہے.
عزیز سائر نے ”مقامِ فکر!‘‘ میں اسلام سے دوری، اسلام قرآن کی نظر میں، انحراف اسلام کا منطقی نتیجہ، ترکِ قرآن کا جرم، قرآن کا فیصلہ، نسلی اور لسانی منافرت، علم وحکمت کی کمی، نفس کی غلامی، اخلاق اور شائستگی کا فقدان، اسلام کے ابتدائی ایام اور بہبود، ایک عظیم قوم کے ساتھ عظیم نا انصافیاں، سمیت 61 مضامین کو بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ سادہ زبان میں اجاگر کرکے اپنی علمی ادبی صلاحیتوں کا اعتراف کروایا ہے. صرف یہ ہی نہیں بلکہ عزیز سائر نے اپنی بامقصد اور بہترین نظموں سے اپنی آوازِدل کو صفحہ قرطاس پر بکھیر کے اردو ادب کی جو خدمت کی ہے، وہ کسی کارنامے سے کم نہیں ہے.

دیکھا نہ اگر سائر نے آنکھوں سے یہ منظر
یہ طے ہے اس کی روح کو قرار ضرور آئے گا