’’پرچھائیں اور عکس‘‘، ڈاکٹر تنویر انور خان کے اب تک شائع ہونے والے بے شمار مجموعوں میں سے دوسرے نمبر پر ہے. اس افسانوی مجموعہ میں مصنفہ کے لاجواب افسانوں کے ساتھ ساتھ کچھ ناولٹ بھی شاملِ اشاعت ہیں.
ان کے اس مجموعے کا پہلا افسانہ ”وعدہ‘‘ ایک ڈاکٹر کی کہانی ہے جو ایک لالچی خاندان کے ظلم کا شکار ہو جاتی ہے لیکن پھر اسی کہانی کا ایک کردار خالہ جانی اسے سہارا دیتی ہیں اور وہ اپنی زندگی کے ایک نئے باب کا آغاز کرتی ہیں. اس افسانے میں مکافات عمل کی بے مثال منظر کشی سادہ اور بے ساختہ انداز میں موجود ہے. یوں لگتا ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ کا مشاہدہ کافی گہرا ہے. وہ سماج میں موجود کہانیاں کھوجنا اور انہیں پیش کرنا خوب جانتی ہیں.
ان کے اس مجموعے میں ان کے تحریر کردہ بہترین ناولٹ بھی شامل ہیں. ”آغوش‘‘ میں بیلا کا مرکزی کردار ہے جو ایک درد مند اور خدمتِ خلق کا جذبہ رکھنے والی لڑکی ہے. وہ اپنی ذمہ داریاں اس قدر ڈوب کر ادا کرتی ہے کہ بالآخر عمیر کی زندگی میں انقلاب آجاتا ہے. ڈاکٹر تنویر انور خان نے ایک معذور بچی کی نفسیات کو نہایت نپے تلے انداز میں بیان کیا ہے. اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک خود سر اور متکبر کردار کے متوازی ایک ایسی دنیا کی منظر کشی کرتی ہیں جہاں ایک معذور بچی پدرانہ شفقت کی منتظر دکھائی دیتی ہے. اس ناولٹ میں بے ساختگی اور دلچسپی کا عنصر اختتام تک برقرار رہتا ہے اور کہانی اپنے منطقی انجام تک پہنچتی ہے.
”بیوٹی کوئین‘‘ ایک ملکہ حُسن ”غزل‘‘ کی کہانی ہے جو امریکہ میں رہنے کے باوجود مشرقی روایات کی امین ہے اور اپنے شوہر کے ناروا رویے اور غرور کو حُسنِ عمل سے تبدیل کر دیتی ہے.
”پرچھائیاں اور عکس‘‘ مینا علی اور منصور کی داستانِ محبت ہے جس میں معذوری اور مینا علی کی قربانی کے باوجود منصور کے دل سے اس کا خیال نہیں نکل پاتا. اس افسانے میں اور بھی کئی چونکا دینے والے موڑ قاری کو آخر تک متوجہ رکھتے ہیں.
جوہی ”ادھورا سنجوگ‘‘ کا مرکزی کردار ہے جس کی نفسیاتی کشمکش کی لاجواب منظر کشی ڈاکٹر تنویر انور خان کے اسلوب تحریر کی خاص خوبی ہے، جس کا اختتام انتہائی اثر انگیز اور متاثرکن ہے.
”سہارا‘‘ ایک رومانی افسانہ ہے جس میں عشق و محبت کی چاشنی اور اس کے متنوع رنگ دکھائی دیتے ہیں. رازی کا کردار ڈاکٹر تنویر انور خان کے گہرے مشاہدے اور سماجی استفادے کا عمدہ نمونہ ہے. ایسے ابن الوقت قسم کے کردار ہمارے معاشرے میں جابجا دکھائی دیتے ہیں. اس کہانی میں ڈاکٹر صاحبہ کے تخلیقی جوہر مزید نمایاں ہوتے محسوس ہوتے ہیں.
مجموعی طور پر ڈاکٹر تنویر انور خان کا یہ افسانوی مجموعہ ان کی اعلٰی تخلیقی صلاحیتوں کا نمونہ ہے. ان کے افسانے بنت اور کرافٹ کے اعتبار سے ہماری سماجی زندگی کا آئینہ ہیں. ان کے افسانے روزمرہ زندگی کے تلخ و شیریں تجربات سے عبارت ہیں. انہیں زبان و بیان پر کامل قدرت حاصل ہے نہایت سلیس اور رواں طرز نگارش ان کا اہم حوالہ ہے. ڈاکٹر صاحبہ کی فکشن نگاری متحیر اور متوجہ کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے. ان کی تحریر میں موجود پختگی زبان و بیان پر مصنفہ کی کمال درجہ قدرت کی غماز ہے. مصنفہ کی تحریر بے ساختگی، شگفتگی، برجستگی اور سادگی کے ساتھ ساتھ ادبی حسن کی بھی حامل ہے. ان کے افسانوں اور ناولٹ کے کردار ہمارے معاشرے میں کسی نہ کسی موڑ پر ظاہر ہوتے دکھائی دیتے ہیں. وہ اردو ادب کی نمائندہ افسانہ نگار ہیں جن کے تذکرے بغیر اردو فکشن نگاری کی تاریخ نامکمل رہے گی.
ڈاکٹر تنویر انور خان نے اردو افسانہ نگاری میں اعلیٰ مقام بنایا ہے ان کے افسانوں کی فضا ہمارے آس پاس پھیلے سماجی رویوں اور معاشرتی ناہمواریوں کی وہ تصویر ہے جو ہم سرسری دیکھ کر گزر جاتے ہیں.
تعلیم، تجارت اور خدمتِ ادب: کتاب فروش آن لائن بُک سٹور – حذیفہ محمد اسحٰق
”مشاہیرِ بلوچستان“، پروفیسر سید خورشید افروزؔ کی متاثر کن تحقیق – محمد اکبر خان اکبر
”حسنِ مصر“ سے آشنائی – محمد اکبر خان اکبر
سلمان باسط اور ”ناسٹیلجیا“ کا پہلا پڑاؤ – محمد اکبر خان اکبر
اُردو کے نامور ناول نگار اور افسانہ نویس، منشی پریم چند – آمنہ سعید
نامور ادیب، پروفیسر تفاخر محمود گوندل کا بے مثال حجاز نامہ ”جلوہ ہائے جمال‘‘ – محمد اکبر خان اکبر
ممتاز شاعر اور ادیب، اکرم خاورؔ کی شاعری – آصف اکبر
ممتاز شاعرہ اور افسانہ نگار، فوزیہ تاج کی کی ایک اعلٰی افسانوی تصنیف، ”جل پری‘‘ – محمد اکبر خان اکبر
نامور کالم نگار و افسر تعلقات عامہ محترمہ تابندہ سلیم کی کتاب، ”لفظ بولتے ہیں“ – محمد اکبر خان اکبر
اسد محمد خان، فن اور شخصیت – شہزینہ شفیع