ممتاز شاعر، ٹیپو ارسل کا مزاحیہ مجموعہ کلام، ’’معاف ہی رکھئے گا‘‘ – محمد اکبر خان اکبر

غم، آرزو، حسرت، اور افسوس کی کیفیات زیستِ انسانی سے جڑی ہوئی ہیں. شادمانی کے لمحات کے ساتھ ساتھ انسان کو درج بالا کیفیات سے بھی پالا پڑتا رہتا ہے. ان سب کیفیات کا زندگی پر کافی گہرا اور دیرپا اثر پڑتا ہے. روز مرہ زندگی کی چھوٹی بڑی تلخیوں اور ذہنی تناؤ کا مقابلہ مزاح سے کیا جاسکتا ہے. فی زمانہ اس صنف میں پھکڑ پن اور عامیانہ زبان درازی ہی حاوی دکھائی دیتی ہے جو معاشرے میں کوئی مثبت تبدیلی پیدا کرنے کی بالکل بھی اہل نہیں اور نہ ہی اس سے اصلاح کی توقع کی جاسکتی ہے.
مزاح نگاری بہت دقت والا اور محنت طلب کام ہے. اخلاقی وسماجی حدود و قیود میں رہ کر معیاری مزاح کی تخلیق ہر ایک کے بس کی بات نہیں.
ٹیپو ارسل ایک منفرد تخلیق کار ہیں. ان کی پہلی کتاب نے ان کی رومانوی شاعری سےقارئین کو آشنا کیا اس کے بعد ایک نعتیہ مجموعہ کلام سے قارئین نے ان کو عاشقِ رسولﷺ کے حوالے سے پہچانا. ان کی یہ دونوں کتابیں ایک سنجیدہ اور متانت سے بھرپور شخصیت کی غمازی کرتی ہیں اب ان کے ایک مزاحیہ مجموعہ کلام ’’معاف ہی رکھئے گا‘‘ نے ان کی شاعری کی ایک اور جہت سے ہمیں آشنا کیا ہے. وہ خود اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ”مزاحیہ ادب ایک مشکل صنف ہے اور اس کے لیے بہت مشاہدے اور ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے.‘‘
وہ نہ ہی ایک خشک ناصح ہیں اور نہ ہی ان کے ہاں لا ابالی پن اور اوٹ پٹانگ باتیں دکھائی دیتی ہیں. سنجیدہ شاعری کے میدان میں اپنا سکہ جمانے کے بعد انھوں نے اپنے مشاہدات، جذبات اور احساسات کو لطیف انداز میں پیش کیا ہے. ان کے ہاں جہاں روایات کا احترام دکھائی دیتا ہے وہیں اظہار کے نئے زاویے بھی سامنے آتے ہیں. وہ معاشرتی و سماجی برائیوں پر نہایت لطیف چوٹیں لگاتے ہیں اور عوام الناس کو متوجہ کرکے اصلاح معاشرہ کی طرف قدم اٹھاتے چلے جاتے ہیں. ان کے کچھ نمکین قطعات دیکھیے:

ظالم قصائی
کئی برس سے یہاں قصائی
دکان اک ہی چلا رہا تھا
پھر اک دن ہم یہ جان پائے
گدھا وہ سب کو کھلا رہا تھا

انقلابی شاعر
بہت تنگ آگئے ہم سازشوں سے
کلنٹن ہے کوئی مودی ہے صاحب
اڑا دوں گا میں سب کو شاعری سے
مرا ہر شعر بارودی ہے صاحب

ماڈرن فیشن
نت نئے فیشن کو اپناتے ہیں سب
اب حیا سوسائٹی میں خاک ہو
سب کو بھاتی ہیں یہاں وہ لڑکیاں
سر کھلا اور تنگ سی پوشاک ہو

ٹیپو ارسل کی مزاحیہ شاعری معنویت سے لبریز ہے. وہ محض اول جلول کرداروں کے بل بوتے پر ہی مزاحیہ شعر تخلیق نہیں کرتے بلکہ شعر کی بنیاد اپنے گہرے مشاہدے پر رکھتے ہیں. ان کے فکری امتیازات کی چھاپ ان کی شاعری میں جابجا محسوس کی جاسکتی ہے.
ان کی متنوع تخلیقی صلاحیتوں کا ادراک ان کی کتابوں کو دیکھ کر ہو جاتا ہے. اس امر میں بھی کوئی ابہام نہیں کہ وہ حقیقت پسند بھی ہیں اور حقیقت نگار بھی. ذرا دیکھیں کہ وہ ٹیکسوں کی بھرمار کو کتنے خوبصورت انداز میں پیش کرتے ہیں:

نیا ٹیکس
گنجوں پر تو بجلی گرنے والی ہے
اس حکومت نے یوں کمانا ہے
کہہ رہے تھے یہ ایک منسٹر کل
ٹیکس اب وگ پہ بھی لگانا ہے

زیرِ نظر کتاب ’’معاف ہی رکھئے گا‘‘ میں ٹیپو ارسل کی مزاحیہ غزلیات کے ساتھ ساتھ مزاحیہ قطعات اور کچھ پنجابی مزاحیہ کلام بھی شامل ہے. ان کی مزاحیہ شاعری میں لطافت آمیز شعری انشراح کی جو کیفیت ہے وہ ان کے فطری مزاج کا ایک عکس محسوس ہوتی ہے. ان کی شاعری میں تشبیہات، استعارات اور تلازمات کا ایک جہاں آباد ہے جو ان کے فنی رسوخ کی پختہ علامت ہے.
ٹیپو ارسل کا شعری سفر پر اعتمادی، پختگی اور شعری رکھ رکھاؤ کے ساتھ بلندی کی طرف جاری ہے. ان کا پر لطف لہجہ اور شعری شعور اس بات کی دلیل ہے کہ وہ برطانیہ میں اُردو ادب کا ایک جگمگاتا ہوا ستارہ ہیں.

اپنا تبصرہ بھیجیں