شاعری ایک ایسا واسطہ جس کی مدد سے انسانی جذبات، خیالات و محسوسات کو نہایت پر اثر انداز میں پیش کرنا ممکن ہوجاتا ہے. یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ شعر میں کہی گئی بات زیادہ دیرپا اور گہرا تاثر قائم کرتی ہے.
نوید صادق نے اپنے ایک تنقیدی مضمون میں لکھا ہے کہ ”بڑا شاعر اپنے آپ کو، اپنے جذبات کو اور اپنی شاعری اپنے قابو میں رکھتا ہے.‘‘
منیر انور کا مجموعہ کلام ’’افکارِ مسافر‘‘ دیکھیں تو یہ بات ان پر مکمل صادق آتی ہے وہ واقعی ایک بڑے شاعر ہیں جنہوں نے اپنے جذبات کو کہیں بے لگام ہونے نہیں دیا. شاعر کے کلام میں رجائیت کا گہرا عکس کئی مقامات پر موجزن دکھائی دیتا ہے. امید و بیم کی کیفیات ان کے کئی اشعار میں واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے. ذرا ان کے اشعار ملاحظہ فرمائیں:
زندگی میں آس سے ہے یاس کا رشتہ وہی
جس طرح کا باغ میں ہے گل کا رشتہ خار سے
ایک اور غزل کے شعر میں فرماتے ہیں:
لوٹ آئیں گے وفا کی ڈگر پر وہ ایک دن
اس آس پر ایک عمر بتا کر کریں گے کیا
منیر انور کو زندگی کے فانی ہونے کا یقین کامل ہے. وہ حقیقت سے منہ موڑنے والوں کے بجائے حقیقت کا سامنا کرنے والوں میں شامل ہیں.
بچپن ہے لڑکپن ہے جوانی ہے زندگی
کتنی طویل کیوں نہ ہو فانی ہے زندگی
لمحوں کی داستان ہے گھڑیوں کا ماجرا
دنیا میں چار دن کی کہانی ہے زندگی
شاعر موت سے گھبرانے کے بجائے اس حقیقت کو تسلیم کرتے محسوس ہوتے ہیں. ان کے ہاں اس حوالے سے ایک اثر پذیری کی نمایاں کیفیت دکھائی دیتی ہے:
اب رہی ہے نہ کوئی بھی فکر دوستو
کٹ گیا زندگی کا سفر دوستو
ایک اور غزل کا مطلع ہے:
مرے جنازے کی پہلی صف میں کھڑے کئی اشک بار ہوں گے
ایک عمر گزری تھی جن کے وہ میرے بچپن کے یار ہوں گے
منیر انور کی غزلوں میں یاد ماضی کی طرف گہرا رجحان محسوس ہوتا ہے اور حسرت و یاس کی بوقلمونی بھی دکھائی دیتی ہے:
ذہن میں ثروت ماضی سے آج ایک یاد آئی ہے
ہے رونق چار سو یاروں نے اک محفل سجائی ہے
ایک اور غزل کا شعر ہے:
آپ کی دوستی یاد رکھوں گا میں
ایک حسین یاد کے طور پر دوستو
منیر انور شاعری کے معاملے میں ایک مخصوص طرزِ فکر اور اظہارِ ذات کی مخصوص جہتوں کی طرف مائل ہیں. ان کا رویہ معاشرے سے لاتعلقی کا نہیں بلکہ اس سے اتصال اور ربط کا ہے. وہ معاشرے میں موجود بے چینی سے واقف ہی نہیں بلکہ ان کے مضمرات کو پیش کرنا بھی جانتے ہیں. منیر صاحب ایک طویل عرصے سے دیارِ غیر میں رہنے کے باوجود اپنی مٹی سے مضبوط تعلق استوار رکھے ہوئے ہیں. کہیں وہ گومگو کی کیفیات سے دوچار دکھائی دیتے ہیں تو کہیں تیقین کی دولت سے مالا مال نظر آتے ہیں. منیر انور کی شخصیت پُر تغیر اور طوفان آشنا ہے کیوں کہ کے ان کے بحر کی موجوں میں اضطراب کا نمایاں رنگ موجود ہے. ان کے ہاں مضامین کی کمی تو نہیں البتہ معاملات حسن و عشق کی فراوانی ضرور ہے.
منیر انور کی شاعری بلا شک وشبہ جذبات کی سچائی اور خیالات کی رعنائی سے معمور ہے. وہ خود تو کسی سے متاثر محسوس نہیں ہوتے البتہ ان کی شاعری پڑھ کر بہت لوگ ان کی متاثر کن شاعری سےمتاثر اور محظوظ ضرور ہوں گے.