جرمنی (رپورٹ: نذر حسین) یومِ آزادی کی تقریبات کے سلسلہ میں ایک مفید کتاب ’’تحریک حقوق‘‘ کی تقریب رونمائی۔
وطنِ عزیز پاکستان کی 75ویں سالگِرہ کے خوب صورت اور مبارک موقع پر جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں پاکستانیوں کے بنیادی حقوق پر مشتمل اپنی نوعیت کی منفرد کتاب ’’تحریکِ حقوق‘‘ کی تقریب رونمائی منعقد کی گئی۔
یہ تقریب پاکستان جرمن پریس کلب، ہم ہیں پاکستان، پوچھتا ہے پاکستان اور شریف اکیڈمی کے تعاون سے منعقد کی گئی۔ تقریب کی نقابت شریف مراد نے بڑے احسن طریقہ سے نبھائی۔ تقریب کی صدارت پاکستان جرمن پریس کلب کے صدر سلیم پرویز بٹ نے کی جب کہ مہمان خصوصی کے طور پر پاسپورٹ اینڈ امیگریشن آفیسر محمد علی رندھاوانے تقریب میں شرکت کی۔ پروگرام کا آغاز اللہ تعالی کے بابرکت نام سے کیا گیا جس کا شرف عدیل اکرم کو ملا، بعد ازاں قومی ترانہ پیش کیا گیا جس پر پاکستان زندہ باد اور نعرہ تکبیر کی صدائیں بلند ہوئیں۔
نقیب تقریب شفیق مراد نے دانیال جہانگیراعوان کا تعارف اور کتاب کے لکھنے کا مقصد بیان کیا. ان کا کہنا تھا کہ قوم کو علم اور شعور کی دولت سے مالا مال کرنا چاہتے ہیں یعنی انسان اپنے آپ کو پہچانے. جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔ دانیال جہانگیراعوان نے پاکستانی عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے آشنا کرنے کے ساتھ ساتھ بنیادی حقوق کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ دانیال جہانگیراعوان نے سٹیج پر آ کر سب سے پہلے تمام دوست و احباب کے تعاون کا شکریہ ادا کیا. تقریب میں نہ صرف فرینکفرٹ بلکہ آسٹریا تک سے دوست تشریف لائے تھے. انہوں نے نام لے لے کر سب کا شکریہ ادا کیا۔ جیسا کہ آزاد حسین، محمود سعید، شیراز گیلانی، شعیب، آسٹریا سے رانا انعام، راجہ عدنان، عدیل اکرم پاشا. کتاب لکھنے کا مقصد بیان کرتے ہوئے دانیال جہانگیر اعوان کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک کو بنے ہوئے پچھتر سال ہو گئے ہیں، اس کی عمر اتنی بڑی نہیں ہے، سترہ سال تک تو اپنے ہی ملک میں ہم جنگ لڑتے رہے ہیں، جیسا کہ افغانستان اور سوویت یونین اور یہ ہماری بڑی کامیابی تھی۔ اگر اس کتاب کو سمجھیں تو یہ ایک کتاب ہے نہ سمجھیں تو سو صفحات پر مشتمل ردی ہے۔ دانیال جہانگیراعوان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان ہمارے لیے ایک عطیہ خداوندی ہے۔ اس کتاب کے لکھنے کا مقصد ہے کہ عوام کو اُن کے بنیادی قانونی حقوق سے آگاہ کیا جائے۔
ان کے خطاب کے بعد بھرپور تالیوں میں کتاب کی رونمائی کی گئی۔ محمود سعید کا کہنا تھا کہ جب کوئی بڑی شخصیت گرفتار کی جاتی ہے تو سننے میں آتا ہے ہمارے بنیادی حق ہیں. ایک غریب شخص کو قانونی حق کیوں نہیں ملتا. طاہرہ فضل کا فرمانا تھا کہ بہت خوش نصیب ہیں دانیال جنہوں نے یہ بیڑہ اٹھایا، انہوں نے ایک شمع روشن کی ہے. اب اس شمع سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہیے. وہ کتنے کامیاب ہوئے ہیں، یہ وقت بتائے گا۔ اسد اللہ طارق نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے دانیال کی اس کوشش کو خوب سراہا.
محترمہ عشرت مٹو کا کہنا تھا کہ صرف اتنا ہی کہوں گی کہ درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو۔ ورنہ اطاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں۔
آزاد حسین کا کہنا تھا کہ پاکستان مختلف پھولوں کا ایک گلدستہ ہے۔ میں کراچی سے ہوں، وہ چکوال سے ہیں لیکن ہم دونوں ایک ہیں کیوں کہ پاکستان نے یہ فرق ختم کر دیا ہے۔ سلیم بھٹی کا کہنا تھا کہ حقوق کا جاننا ہمارے لیے بہت ضروری ہے۔ ہم دانیال کے شکرگزار ہیں کہ انہوں نے اُردو میں ترجمہ کر کے بہت سے لوگوں کے لیے آسانیا ں پیدا کر دی ہیں۔ اسی طرح ساحل عدیل، خواجہ خالد رشید، محمد مبین اور شارق جاوید نے بھی اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
مہمان خصوصی محمد علی رندھاوا نے اپنے خطاب میں بتایا کہ قونصل جنرل زاہد حسین سرکاری مصروفیات کی بنا پر برلن میں ہیں، جس وجہ سے قونصلیٹ کی طرف سے میں یہاں موجود ہوں۔ سب سے پہلے انہوں نے شرکاء محفل کو جشن آزادی کی مبارک باد دی۔ ان کا کہنا تھا کہ دانیال مبارک باد کے مستحق ہیں۔ میں ایک گورنمنٹ آفیسر ہونے کے ناتے کہوں گا کہ ہمارے قوانین آئین پاکستان کا پہلے سے اردو ترجمہ موجود ہے جس کو سمجھ پانا آسان نہیں ہے، دانیال نے جو آرٹیکل لکھے ہیں، آسان اردوکے ساتھ ساتھ قرآن و حدیث کی مثالیں بھی دی ہیں۔ یہ کہہ دینا کہ پاکستان میں کوئی قانون موجود نہیں، ایسا نہیں ہے۔ ہمارے پاکستان میں بھی قوانین موجود ہیں۔ مجھے تمام پاکستانی کمیونٹی کو دیکھ کر خوشی محسوس ہوتی ہے۔
صدر محفل سلیم پرویز بٹ کا کہنا تھا کہ ہم تو یہاں جشن آزادی کے موقع پر خوشیاں منا رہے ہیں جب کہ پاکستان میں ایک قدرتی آفت سیلاب کی صورت میں موجود ہے۔ ہمیں سیلاب زدگان کی مدد کرنا چاہیے اور دعا بھی کرنی چاہیے۔ اس سے پہلے بھی اوورسیز کی امداد پہچتی رہی ہے۔ بات کریں آئین کی تو دانیال نے سلیس اُردو میں لکھا ہے۔ بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ حقوق اور فرائض ہوتے ہیں۔ حقوق و فرائض کا پتا ہمیں ریاست دیتی ہے۔ ریاست کچھ چیزیں فرض نہیں کرتی مگر کچھ کا حق بھی نہیں دیتی۔ تقریب کے اختتام پر دانیال جہانگیراعوان نے شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔ اختتام پر پاکستانی لذیز کھانوں سے مہمانوں کی تواضع کی گئی۔