ڈاکٹر تنویر انور خان کا افسانوی مجموعہ، ’’ہلالی کنگن‘‘ – محمد اکبر خان اکبر

ادب کی تمام شعری اور نثری اصناف میں افسانوی ادب کو شاید سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہے. یہی وجہ ہے کہ قارئین کی توجہ افسانوی ادب کو ہی ملتی ہے. ڈاکٹر تنویر انور خان ممتاز معالج ہونے کے ساتھ ساتھ ایک منفرد اور اعلٰی تخلیق کار بھی ہیں. ڈاکٹر صاحبہ کی لازوال طبی خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں. اسی طرح ان کی ادبی خدمات بھی لائقِ صد تحسین ہیں. اُردو فکشن نگاری میں ان کی حیثیت مسلمہ ہے. وہ یقیناً ایک کہنہ مشق افسانہ نگار اور کہانی کار ہیں جو گزشتہ چھ عشروں سے اُردو ادب کی خدمت میں ہمہ تن مشغول ہیں. ’’ہلالی کنگن‘‘ ڈاکٹر صاحبہ کی ساتویں کتاب ہے. اس افسانوی مجموعے میں ان کے نو افسانے شامل ہیں. ’’ہلالی کنگن‘‘ ندا اور نعمان کی کہانی ہے جو غلط فہمی کے باعث رشتوں میں رخنہ اندوزی کی منفرد عکاسی کرتی ہے.
”اداس عید‘‘ ایک سماجی کہانی ہے، خصوصاً بیرون ملک مقیم ایک جوڑے کی کہانی جس کا اختتام غم انگیزی کی کچھ اور تصویر دکھاتا ہے. ”عید کارڈ‘‘ ایک ڈاکٹر کی کہانی ہے جو اپنے شوہر سے دور رہ کر بھی اس کی محبت کا دم بھرتی ہے اور شوہر بھی اس کی محبت کا جواب اسی طرح دیتا ہے اور وہ دونوں امریکہ میں رہنے لگتے ہیں. اس افسانے سے یہ سبق ملتا ہے کہ محض آسائشوں کے سہارے زندگی بسر نہیں کی جا سکتی.
”درد کی آواز‘‘، ”سبق‘‘، ”افزا‘‘ وغیرہ بھی اعلٰی افسانے ہیں جو سماج اور اس سے جڑی گھریلو زندگی کی عکاسی کرتے ہیں. مصنفہ کی کہانیوں میں مشرقی روایات کی پاسداری کا گہرا تاثر دکھائی دیتا ہے. ان کے ہاں رومانیت کا اثر کافی محسوس ہوتا ہے. وہ کہانی کی بنت، کرافٹ اور الفاظ کے چناؤ پر خاصا عبور رکھتی ہیں. ان کے افسانے مکالموں اور کرداروں کے تاثرات سے مزید دلکش اور جاذب ہو جاتے ہیں. ڈاکٹر تنویر کے افسانے خانگی جوار بھاٹے کی اعلی منظر کشی کے باعث خواتین میں زیادہ مقبول محسوس ہوتے ہیں.
ڈاکٹر صاحبہ نے جہاں اب تک لاکھوں بیماروں کی مسیحائی کی ہے، ان کا علاج کیا ہے، وہیں انہوں نے قارئین کا ایک وسیع حلقہ بھی تخلیق کیا ہے. گمان غالب ہے کہ ان کی تصانیف کافی مقبولیت رکھتی ہیں. شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی دس کتب منظرِ عام پر آکر قارئین کی ادبی پیاس بجھانے میں مصروف ہیں.
ڈاکٹر تنویر کی افسانہ نگاری اردو کے افسانوی ادب کا اہم باب ہے. انہوں نے انتہائی مصروف پیشہ ورانہ زندگی کے باوجود اعلٰی ادب تخلیق کیا ہے جو بذاتِ خود ایک بڑے ادبی کارنامے سے کسی صورت کم نہیں.