اکادمی ادبیات پاکستان کے زیرِ اہتمام، تین روزہ کانفرنس، ”بچوں کا ادب: ماضی، حال اور مستقبل‘‘

”بچوں کے ادیب ہمارے لیے قابل احترام لکھاری ہیں کیوں کہ یہ ہماری نسلوں کی تربیت کی اہم ذمہ داری سرانجام دے رہے ہیں۔ ثقافت و ورثہ ڈویژن کی سرپرستی میں اس کانفرنس کی خوبی یہ رہی کہ بچوں، نوجوانوں، جوانوں، بزرگوں، مردوں و خواتین ہر عمر کے لوگوں نے اس میں بخوشی شرکت و استفادہ کیا۔ تمام ادیبوں کو مبارک باد اور امید ہے کہ ڈاکٹر یوسف خشک اور انُکی ٹیم اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر انتظام آئندہ بھی ایسی ہی مؤثر اور کامیاب تقریبات کا انعقاد کرکے ڈویژن اور وزارت کو سرخرو کریں گے۔‘‘
• خانم فارینہ مظہر، وفاقی سیکرٹری قومی ورثہ و ثقافت پاکستان

”بچوں کو ادب کی طرف راغب کرنے کے لیے رسائل، کتب، ٹی وی چینل اور فلمیں بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ 75 سال میں پہلی بار پاکستان میں سرکاری سطح پر بچوں کے ادب پر کانفرنس کروانے میں محترمہ فارینہ مظہر سیکریٹری ورثہ ڈویژن، چیئرمین ڈاکٹر یوسف خشک اور اکادمی ادبیات کی ٹیم کی کوششیں قابل تعریف ہیں۔‘‘
• اصغر ندیم سید

”یہ کانفرنس بہت کامیاب رہی اس شعور کو جگانے میں کہ ادب اور آرٹ انسان کے لیے بہت ضروری ہے۔ بچوں کی ماؤں سے امید ہے کہ وہ اپنے بچوں کو لوریاں اور کہانیاں سنا کر انہیں معاشرے کااچھا فرد بنائیں گی۔ بچوں کے ادب پر پہلی اور سچ مچ کی کانفرنس منعقد کی گئی۔‘‘
• ڈاکٹر فاطمہ حسن

قومی سطح پر یہ کانفرنس جہاں وسل بلور ثابت ہوئی، وہاں ہمارے ذاتی مخمسے بھی دور کیے. ہم نے اپنے بچوں کو اپنے نصاب سے نکلنے نہیں دیا۔ پچھلے دو تین برسوں میں اکادمی ادبیات کی پبلیکیشنز، سیمینارز اور کانفرنسوں نے پورے پاکستان کو ادبی سطح پر یک جان کر دیا ہے-‘‘
• محمد حفیظ خان، پنجاب

”اس تین دن کی کانفرنس میں بطور بچوں کے ادیب، ہمیں سیکھنے کا موقعہ ملا کہ ہمیں کیسا لکھنا چاہیے۔ اپنے انداز کی منفرد کانفرنس تھی اپنی 50 سالہ ادبی زندگی میں اندرون و بیرون ملک کئی کانفرنسز میں شرکت کی. اس نوعیت کی کانفرنس جس میں روحانی تسکین حاصل ہو، پہلی مرتبہ ایسی کانفرنس دیکھی ۔‘‘
• ڈاکٹر ادل سومرو، سندھ

”میں فخر محسوس کر رہا ہوں کہ اکادمی ادبیات پاکستان جو تاریخ رقم کر رہی ہے، اس کا میں بھی حصہ ہوں۔ کرونا میں بھی اکادمی کے سربراہ ڈاکٹر یوسف خشک اور ان کی ٹیم نے، سیمینارز کانفرنس کا راستہ نہیں روکا۔ بچوں کے ادب پر کانفرنس بڑی مثال ہے۔ نیشنل کلچر ڈویژن محترمہ فارینہ مظہر کا شکریہ کہ انہوں سے اس کانفرنس کی اجازت دی۔‘‘
• اباسین یوسفزئی خیبر پختونخوا

”تین دن ہم اپنے بچپنے میں کھوئے رہے اور ساتھ ساتھ اکادمی کے یہ در و دیوار بھی مختلف زبانوں کی لوریاں سن کر خماروں سے مخمور رہے۔
تین دن کے لیے اس کانفرنس میں میزبانوں نے جس انداز سے مہمان نوازی کے ساتھ ہماری فکری خوراک کا اہتمام کیا، بلا تفریق شرق و غرب قابل تحسین ہے۔‘‘
• عبدالروف رفیقی بلوچستان

”اس اکادمی ادبیات سے پچھلے 22 سالوں سے میرا تعلق ہے. اکادمی کے اندر اس سے پہلے ہم نے پورے پاکستان کے ادیبوں کی ایسی بڑی رونق نہیں دیکھی جو پچھلے تین روز سے دیکھ رہا ہوں۔‘‘
• احسان دانش، گلگت بلتستان و آزاد کشمیر

”اکادمی ادبیات نے بے شمار کانفرنسیں اور سیمینار منعقد کیے ہیں مگربچوں کے ادب کی یہ کانفرنس اپنی نوعیت کے اعتبار سے نہایت منفرد اور اہم کانفرنس تھی کہ اس میں سامعین بچے بھی تھے۔ اس طرح ہم نے انہیں ان کے اہم ہونے کا احساس دلایا اور اپنا پیغام بھی ان تک پہنچایا کہ بچوں کا ادب پڑھنا ان کے لیے ناگزیر ہے۔‘‘
• ڈاکٹر یوسف خشک، چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان


بچوں کے ادیب ہمارے لیے قابل احترام لکھاری ہیں کیوں کہ یہ ہماری نسلوں کی تربیت کی اہم ذمہ داری سرانجام دے رہے ہیں۔ ثقافت و ورثہ ڈویژن کی سرپرستی میں اس کانفرنس کی خوبی یہ رہی کہ ، بچوں ، نوجوانوں ، جوانوں ، بزرگوں مردوں و خواتین ہر عمر کے لوگوں نے اس میں بخوشی شرکت و استفادہ کیا ۔ بچوں کی 3روزہ کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر بچوں کے ادب سے وابستہ اہل قلم کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرنا چاہتی ہوں کہ ان کی محنت سے یہ کانفرنس کامیاب ہوئی۔ ان خیالا ت کا اظہارمحترمہ فارینہ مظہر، وفاقی سیکرٹری، قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن، حکومتِ پاکستان نے اکادمی ادبیات پاکستان کے زیرِ اہتمام تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس کی اختتامی تقریب میں کیا۔ وہ اس تقریب کی مہمان خصوصی تھیں۔ اصغر ندیم سید اورڈاکٹر فاطمہ حسن مہمانانِ اعزاز تھے۔ ڈاکٹر یوسف خشک، چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ محمد حفیظ خان (پنجاب)، ڈاکٹر اباسین یوسفزئی (خیبر پختونخوا)، ڈاکٹر ادل سومرو(سندھ)، ڈاکٹر رؤف رفیقی (بلوچستان) اوراحسان دانش (گلگت، بلتستان و آزاد کشمیر) نے اپنے اپنے صوبے کے ادبا کی نمائندگی کرتے ہوئے اظہار خیال کیا۔ پروگرام کی نظامت اُردو کی معروف ادیبہ عنبرین حسیب عنبر نے کی۔

محترمہ فارینہ مظہر، وفاقی سیکرٹری، قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن نے کہا کہ پاکستان کے مختلف علاقوں سے تشریف لائے ہوئے صاحبانِ فہم وفراست اور ہال میں موجود لائق قدر شرکا خواتین وحضرات آج اس تین روزہ کانفرنس کا اختتامی اجلاس ہے، مجھے ذاتی طور پر اطمینان ہے کہ پچھلے تین دنوں کے اندر پاکستان اور بیرون ممالک سے بچوں کے ادیبوں، تخلیق کاروں، شاعروں اور محققوں کی بڑی تعداد نے اس میں شرکت فرمائی اور نہایت پر مغز مقالات پیش کیے، اپنی تخلیقات پیش کیں، اپنے تجربات پیش کیے اور اس کانفرنس کی خوب صورتی یہ تھی کہ ہر عمر کے انسانوں، بچوں، نوجوانوں، بزرگ مردو خواتین سب نے اس کانفرنس میں خوشی خوشی شرکت کی اور ہر ایک نے اس سے استفادہ کیا۔ اس کانفرنس کا کامیاب انعقاد اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم ادب کو اور خاص کر بچوں کے ادب کو اپنی زندگیوں میں کتنی زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور اس حوالے سے بات کرنے اور سننے کے لیے اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر یہاں اکٹھے ہوئے ہیں اور ہم نے اس تقریب کو کامیاب بنایا۔ میں اس کامیاب تقریب کے انعقاد پر بچوں کے ادب سے وابستہ اہلِ قلم کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرنا چاہتی ہوں کہ آپ کے شرکت کی وجہ سے یہ کانفرنس کامیاب ہوئی۔ امید ہے ڈاکٹر یوسف خشک اوران کی ٹیم اکادمی ادبیات پاکستان کے زیرِ انتظام آئندہ بھی ایسی ہی مؤثر اور کامیاب تقریبات کا انعقاد کرکے ڈویژن اور وزارت کو سرخرو کریں گے۔
اصغر ندیم سید نے کہا کہ 75 سال میں پہلی بار پاکستان میں اس نوعیت کی بچوں کی کانفرنس منعقد کی گئی ہے جس کے لیے چیئرمین اکادمی اور ثقافت ڈویژن مبارک باد کے مستحق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے پہلی تحریر بچوں کے لیے لکھی اور میں بچپن میں باقاعدہ 6 رسالوں کا قاری تھا۔ اصغر ندیم سید نے مزید کہا کہ سب سے بڑا سچ بچے کا سچ ہے۔ اس لیے بچوں کے لیے ادب تخلیق کرنا مشکل ہے۔
انہوں نے کہا کہ بچوں کو ادب کی طرف راغب کرنے کے لیے رسائل ، کتب ، ٹی وی چینل اور فلمیں بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ 75 سال میں پہلی بار پاکستان میں سرکاری سطح پر بچوں کے ادب پر کانفرنس کروانا محترمہ فارینہ مظہر، سیکریٹری ورثہ ڈویژن اور ڈاکٹر یوسف خشک چیئرمین اکادمی ادبیات اور ان کی ٹیم کی کوششیں قابل تعریف ہیں۔
ڈاکٹر فاطمہ حسن نے کہا کہ اس کانفرنس میں شرکت کر کے محسوس ہوا کہ یہ تین دن میں نے اپنے بچپن کے ساتھ گزار دیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ادب اور آرٹس انسان کو وہ شعور عطا کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ ایک مہذب انسان بنتا ہے۔ بہت کامیاب رہی یہ کانفرنس اس شعور کو جگانے میں کہ ادب اور آرٹ انسان کے لیے بہت ضروری ہے۔ بچوں کے ادب پر پہلی اور سچ مچ کی کانفرنس منعقد کی گئی بچوں کے 3 روزہ کانفرنس کا انعقاد بڑا کارنامہ ہے جس کے لیے چیئرمین اکادمی اورقومی ورثہ وثقافت ڈویژن مبارک باد کے مستحق ہیں. انہوں نے کہا کہ ماؤں سے امید ہے کہ بچوں کو لوریاں اور کہانیاں سنا کر معاشرے کا اچھا فرد بنائیں۔
صوبہ پنجاب کے دانشوروں و ادبا و اسکالرز کی نمائندگی کرتے ہوئے معروف ادیب ناول نگار محمد حفیظ خان نے اپنے خطاب میں کہا قومی سطح پر یہ کانفرنس جہاں وسل بلور ثابت ہوئی، وہاں اس نے ہمارے ذاتی مخمسے بھی دور کیے۔ ہم نے اپنے بچوں کو اپنے نصاب سے نکلنے نہیں دیا۔ اس کانفرنس نے جہاں کئی سوالوں کے جواب دیے وہاں کئی سوال بھی پیدا کیے ہیں۔ پچھلے دوتین برسوں میں اکادمی ادبیات کی مطبوعات، سیمینارز اور کانفرنسوں نے پورے پاکستان کو ادبی سطح پر یک جان کر دیا ہے-
سندھ کے نامور ادیب و شاعر ڈاکٹر ادل سومرو نے صوبہ سندھ کے ادبا کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے خطاب میں کہا کہ بچے کسی سے نفرت نہیں کرتے، تین دن کی اس کانفرنس میں بطور بچوں کے ادیب ہمیں سیکھنے کا موقعہ ملا کہ ہمیں کیسا لکھنا چاہئیے۔ اپنے انداز کی منفرد کانفرنس تھی اپنے 50 سالہ ادبی زندگی میں اندرون و بیرون ملک کئی کانفرنسز میں شرکت کی اس نوعیت کی کانفرنس جس میں روحانی تسکین حاصل ہو پہلی مرتبہ ایسی کانفرنس دیکھی۔

صوبہ خیبر پختونخوا کے نامور ادیب دانشور و محقق اباسین یوسفزئی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں فخر محسوس کر رہا ہوں کہ اکادمی ادبیات پاکستان جو تاریخ رقم کر رہی ہے، اس کا میں بھی حصہ ہوں۔ کرونا میں بھی اکادمی کے سربراہ ڈاکٹر یوسف خشک اور اس کی ٹیم نے، سیمینارز کانفرنس کا راستہ نہیں روکا۔ بچوں کے ادب پر کانفرنس بڑی مثال ہے۔ ہر صوبے سے بچوں کی مادری زبانوں کا رسالہ بھی شایع ہونا چاہیے۔ نیشنل کلچر ڈویژن کا شکریہ کہ انہوں سے اس کانفرنس کی اجازت دی.
صوبہ بلوچستان کے نمائندہ مصنف معروف اقبال شناس ومحقق عبدالروف رفیقی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 75 سال میں حکومتی کی طرف سے قومی سطح پر کبھی ایک بھی کانفرنس بچوں کےحوالے سے نہیں ہوئی. یہ اعزاز ڈاکٹر یوسف خشک اور ان کی ٹیم کو نصیب ہوا چشم بددور۔ کانفرنس کے تین دن ہم اپنے بچپنے میں کھوئے رہے اور ساتھ ساتھ اکادمی کے یہ در و دیوار بھی مختلف زبانوں کی لوریاں سن کر خماروں سے مخمور رہے۔ تین دن کے لیے اس کانفرنس میں میزبانوں نے جس انداز سے مہمان نوازی کے ساتھ ہماری فکری خوراک کا اہتمام کیا بلا تفریق شرق و غرب قابل تحسین ہے۔
گلگت بلتستان و آزاد کشمیر کی نمائندگی کرتے ہوئے معروف شاعر، مورخ، ادیب مترجم احسان دانش نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ، پاکستان کے چنیدہ معروف ادیب اس کانفرنس میں شریک ہیں۔ اکادمی ادبیات پاکستان سے پچھلے 22 سالوں سے میرا تعلق ہے مگر اکادمی کے اندر اس سے پہلے ہم نے پورے پاکستان کے ادیبوں کی بڑی رونق نہیں دیکھی جو پچھلے تین روز سے دیکھ رہا ہوں۔

ڈاکٹر یوسف خشک، چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان نے کہا کہ الحمداللہ اکادمی ادبیات پاکستان کے تحت پہلی تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس بچوں کا ادب: ماضی، حال اور مستقبل اپنے اختتام کو پہنچی۔ مگر دراصل یہ آغاز ہے ایک مضبوط بنیاد کا۔ ہم سب ایک مضبوط، مستحکم اور خوشحال پاکستان چاہتے ہیں۔ ان تین دنوں میں ہم نے مختلف زاویوں سے بچوں کے ادب کا جائزہ لیا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ ہم جدید دور کے بچوں کے لیے ادب کو کس طرح اہم اور مفید بناسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس جدید اور پیچیدہ دنیا کو سمجھنے میں ادب زیادہ اہم ہے مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ ادب ارتقائی مراحل طے کرلے اور بچوں کے ذہنی ارتقا کو سمجھے۔ اس شعور کے ساتھ جو ادب تخلیق ہوگا وہ بچوں کے لیے دلچسپ بھی ہوگا اور اہم بھی۔ اس لیے ہم نے بچوں کے ادب میں ماضی، حال کا جائزہ لیتے ہوئے مستقبل کے امکانات پر توجہ مرکوز کی ۔مجھے یہ بتاتے ہوئے فخر محسوس ہورہا ہے کہ حکومتِ پاکستان نے اس کانفرنس کی اہمیت کو سمجھا اور ہماری کاوشوں کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ افتتاحی اجلاس میں وفاقی وزیر برائے انجینئرامیر مقام مشیر برائے وزیر اعظم پاکستان برائے قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن نے خصوصی دلچسپی کا اظہار فرمایا اور آج اختتامی اجلاس میں وفاقی سیکریٹری برائے قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن محترمہ فارینہ مظہر صاحبہ تشریف فرما ہیں میں ان سب کا شکر گزار ہوں اور اپنے مہمانانِ خاص کو بتانا چاہتا ہوں کہ ان تین دنوں میں ہم نے بچوں کے شعری اور نثری ادب کا جائزہ لیا اور ادب کو درپیش مسائل کو سمجھا، بچوں کے رسائل سے ادب کے امکانات کا جائزہ لیا، وطن کو مستحکم کرنے کے لیے ثقافت اور حب الوطنی کا جذیہ بچوں میں ادب کے ذریعے اجاگر کرنے پر اہم گفتگو ہوئی اور بچوں کے ادب کو درپیش مسائل اور ان کے حل کے لیے عملی تجاویز پر غور کیا گیا۔

اکادمی ادبیات پاکستان نے بے شمار کانفرنسیں اور سمینار منعقد کیے ہیں مگربچوں کے ادب کی یہ کانفرنس اس لحاظ سے اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفرد اور اہم کانفرنس تھی کہ اس میں سامعین بچے بھی تھے۔اس طرح ہم نے انھیں ان کے اہم ہونے کا احساس دلایا اور اپنا پیغام بھی ان تک پہنچایا کہ بچوں کا ادب پڑھنا ان کے لیے ناگزیر ہے۔ ہم نے بچوں کے ادیبوں، شاعروں کو بھی احساس دلایا کہ وہ ہمارےلیے بہت اہم اور قابلِ احترام ہیں کیوں کہ وہ ہمارا ہراول دستہ ہیں جس کی مدد سے ہم علمی، فکری، ذہنی اور عملی تربیت کرکے بچوں کو کارآمد شخصیت بنا سکتے ہیں۔ دائرہ علم و ادب پاکستان کے اشتراک کا اور ان تمام ادیبوں شاعروں کا بے حد شکریہ ادا کرتا ہوں جو میری قوم کے معماروں کی شخصیت سازی میں مصروف ہیں۔ سیکریٹری برائے قومی ورثہ وثقافت ڈویژن محترمہ فارینہ مظہر صاحبہ کا خصوصی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ اس کانفرنس کے اختتامی اجلاس میں اپنی گونا گوں مصروفیات میں سے وقت نکال کر یہاں تشریف لائیں اور اپنی دلچسپی سے یہ پیغام دیا کہ بچوں کی ذہنی نشو ونمااور تعمیر میں خواتین بھی بے حد سنجیدہ ہیں اور جب ہم سب اس نیک مقصد کے لیے ایک ہوگئے ہیں تو یقین رکھیے کہ آج ہم نے جو بنیاد رکھی ہے اس پر آنے والے وقت میں مضبوط قلعہ تعمیر ہوگا۔

رپورٹ: محمد سعید، شعبہ تعلقات عامہ، اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد