کبھی کتابوں کی مہک سانسوں میں اُتاری ہے تم نے؟
منہ ہاتھ دھو کر، خالی پیٹ۔۔۔
انارکلی کی کتابیں، کبھی چھانی ہیں کیا؟
کتابوں کے ورق پلٹتے کبھی کھڑے کھڑے،
جہانوں کے سفر طے کیے ہیں تم نے؟
کتابوں کے درمیاں،
غلافی کتابی آنکھیں لیے،
کتاب چہرے، باب در باب چہرے۔۔۔
متفکر سوچ لیے، بوسیدہ لباس سے اُبھرتے،
اُجڑے حال، بانکے دیہاڑے، بے نیاز، لاپرواہ۔۔۔
کتابیں جانچتے، ایسے لوگ ملے ہیں کبھی؟
مال روڈ پہ سڑکو سڑکی،
پڑی کتابیں، کھنگالی ہیں کبھی۔۔۔
فیروز سنز۔۔۔ جو کبھی تھا۔۔۔
اس کی راہداریاں،
کتابوں سے لبریز۔۔۔ سارے میز،
چھو کر،
ہاتھوں میں کتابوں کی خوشبو بسائی ہے کبھی؟
آگر اس سب کا جواب نہیں، نہیں، نہیں ہے تو،
سنو! اِک اور زندگی مانگ لو۔۔۔
اور اگر ہاں، ہاں، ہاں ہے تو۔۔۔
بقیہ دن بھی یونہی گزار لو،
کہ یہی حقیقت ہے،
باقی سب مایا ہے!
اسد محمد خان، فن اور شخصیت – شہزینہ شفیع
سلام بن رزاق نے کردار نہیں رویے خلق کیے ہیں: سرفراز آرزو
ادبی فورم، ریاض کے زیرِ اہتمام حج سے واپسی پر حسان عارفی کی تہنیت میں ادبی نشست
معروف ادیب اختر شہاب کا افسانوی مجموعہ ”من تراش“ – محمد اکبر خان اکبر
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد مانگٹ کا بے مثل سفرنامہ، ”پھر چلا مسافر“ – محمد اکبر خان اکبر
شکریہ ”الفانوس“ – حسنین نازشؔ
یادوں کی بارش میں نہائے ہوئے لمحوں کی روداد
”خود کی تلاش“، اختر سردار چوہدری کی کہانی کاری – محمد اکبر خان اکبر
”صاحبِ اقلیمِ ادب“، بے بدل صحافی، مدیر اور ناول نگار کو خراجِ تحسین – محمد اکبر خان اکبر
معروف ادیب، مضمون نگار اور سفرنامہ نویس طارق محمود مرزا کا ”مُلکوں مُلکوں دیکھا چاند“ – محمد عمران اسحاق