کتابوں کے درمیاں – عمران احسان

کبھی کتابوں کی مہک سانسوں میں اُتاری ہے تم نے؟
منہ ہاتھ دھو کر، خالی پیٹ۔۔۔
انارکلی کی کتابیں، کبھی چھانی ہیں کیا؟
کتابوں کے ورق پلٹتے کبھی کھڑے کھڑے،
جہانوں کے سفر طے کیے ہیں تم نے؟
کتابوں کے درمیاں،
غلافی کتابی آنکھیں لیے،
کتاب چہرے، باب در باب چہرے۔۔۔
متفکر سوچ لیے، بوسیدہ لباس سے اُبھرتے،
اُجڑے حال، بانکے دیہاڑے، بے نیاز، لاپرواہ۔۔۔
کتابیں جانچتے، ایسے لوگ ملے ہیں کبھی؟
مال روڈ پہ سڑکو سڑکی،
پڑی کتابیں، کھنگالی ہیں کبھی۔۔۔
فیروز سنز۔۔۔ جو کبھی تھا۔۔۔
اس کی راہداریاں،
کتابوں سے لبریز۔۔۔ سارے میز،
چھو کر،
ہاتھوں میں کتابوں کی خوشبو بسائی ہے کبھی؟
آگر اس سب کا جواب نہیں، نہیں، نہیں ہے تو،
سنو! اِک اور زندگی مانگ لو۔۔۔
اور اگر ہاں، ہاں، ہاں ہے تو۔۔۔
بقیہ دن بھی یونہی گزار لو،
کہ یہی حقیقت ہے،
باقی سب مایا ہے!

اپنا تبصرہ بھیجیں