کسی بھی شخص کے لیے یادداشتوں کو احاطہ تحریر میں لانا ایک مشکل امر ہے اور یہ کام اس وقت مشکل ترین مرحلہ بن جاتا ہے اگر لکھنے والا شاعر ہو کیوں کہ شاعر کا تعلق معاشرے کے سب سے حساس طبقے سے ہوتا ہے. سلسلہ روز و شب کے مابین وقوع پذیر واقعات کا وہ نہایت گہرا اثر قبول کرتا ہے، جس کا عکس اس کی سخن سرائی میں نمایاں ہوتا ہے. وہی شاعر جب اپنے حالات و جذبات کے اظہار کے لیے نثر کا سہارا لیتا ہے تو اس کی تحریر ایک ایسی پر اثر تصویر کھینچ دیتی ہے کہ جسے ہر ایک پڑھنے والا اسی مقام پر موجود ایک ایک واقعے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہو. یوں تو اردو کی پہلی آپ بیتی کالا پانی سے اب تک ہزاروں خودنوشت سوانح عمریاں تحریر کی جاچکی ہیں، مگر اس اب تک کوئی کلیہ ایسا وضع نہیں ہوا کہ جس کے مطابق کوئی شخصیت اپنی یادوں میں قارئین کو شریک کرسکے. عموماً اپنی یادوں کو احاطہ تحریر میں لاتے وقت مصنف کئی طرح کی بوقلمونی کیفیات سے دوچار ہوتا ہے.
ایک طرف گذشتہ ایام کی خوشیاں تحریر کرتے ہوئے ان کا تذکرہ کرتے ہوئے عالم سرشاری سے گزرتا ہے تو دوسری طرف غم ناک ایام اور ان سے مربوط یادوں کو نوک خامہ پر لانے سے قبل ایک کرب کا سامنا کرنا پڑتا ہے. صرف یہی دو متضاد کیفیات اولاد آدم کو ایک اندرونی خلفشار میں مبتلا کرنے پر قادر ہیں. باایں ہمہ اگر مصنف اس داخلی کشمکش سے چھٹکارا پانے میں کامیاب بھی ہو جائے اس کی راہ مسدود کرنے والی اور کئی رکاوٹیں، مصلحت اور قدغن کےروپ میں جلوہ گر ہو جاتی ہیں اگر وہ اپنی کامیابیوں اور کامرانیوں کا ذکر کرتا ہے تو نرگسیت کا جن سامنے آن موجود ہوتا ہے، لوگوں کی طرف سے متوقع اور بسا اوقات یقینی جملے اس کا راستہ روکنے لگتے ہیں کہ اس کو دیکھو اپنی تعریف و توصیف میں کتنے اوراق سیاہ کر رکھے ہیں.
دوسری جانب اگر وہ اپنی کمزوریوں، ناکامیوں اور ناموافق حالات سے نبردآزما ہونے کا حال لکھتا ہے تاکہ اپنے قارئین کو ایسے حالات میں مردانہ وار مقابلے کا حوصلہ ملے، لوگوں کے منفی رویے اور نامناسب تنقید اسے یہاں بھی چین نہیں لینے دیتی. یہی وہ وجوہات ہیں جن کے باعث اپنی یادوں کا مجموعہ تحریر کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے.
معروف شاعر جمیل ہاشمی میدان سخن کے شہسوار تو پہلے سے ہی تھے اب ان کی کتاب ’’یادیں‘‘ دیکھ کر یہ یقین کامل کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے نثری اور سوانحی ادب میں بھی جھنڈے گاڑ دیے ہیں.
ان کی یہ تحریر اردو ادب میں ایک اہم اضافہ ہے. ان کی رواں نثر اور پر اثر فقروں کا اثر قاری کے دل پر تا دیر قائم رہتا ہے ابھی قاری ایک واقعے کے سحر سے نکلا نہیں ہوتا کہ ایک اور دلچسپ واقع اسکی توجہ اپنی جانب مرکوز کر لیتا ہے. انہوں نے اپنے بچپن کی یادوں کی خوب ترجمانی کی ہے ان کا قلم جب اپنے اجداد کی یاد میں اٹھتا ہے تو ایک ایک لفظ سے تقدیس کی منفرد خوشبو بکھیرتا چلا جاتا ہے. وہ جب کسی کی شخصیت کا خاکہ کھینچے ہیں تو اپنے قاری کو اس کردار کی طلسم آفرینی میں گم کر دیتے ہیں.
فرزند اقبال جسٹس جاوید اقبال اپنی خودنوشت ’’اپنا گریباں چاک‘‘ کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ:
”ہر شخص اگر اپنے حالات لکھنے بیٹھے تو یہ اس کے دل و دماغ کی سرگزشت ہی ہوگی- ہم میں سے ہر ایک کے پاس دل و دماغ ہی تو ہے جسے شعور کہا جاتا ہے- اس اعتبار سے بھی ہر سرگزشت دوسری سے مختلف ہوگی، کیوں کہ ہر انسان دوسرے سے مختلف ہے.‘‘
قبلہ جمیل ہاشمی کی یادداشتیں اس لحاظ سے منفرد تو ہیں کہ ہر انسان کی سرگزشت اس کی زندگی کے واقعات کسی بھی دوسرے انسان سے مختلف ہوتے ہیں البتہ یہ محترم جمیل ہاشمی کی تحریر کا اعجاز و افتخار ہے کہ انہوں نے عمدہ انداز تسوید، الفاظ کے خوب تر چناو اور لاجواب ترتیب سے واقعات زیست کو اپنی کتاب کا حصہ بنایا ہے.
کسی عام سے واقعے کو بھی اگر اعلٰی نثر پارے کے رنگ میں پیش کر دیا جائے تو قارئین کی توجہ و دلچسپی قائم رہتی ہے اور وہ تحریر ایک اعلٰی ادبی فن پارے کا رتبہ پا لیتی ہے. میری نظر میں مصنف مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہیں نہ صرف خوبصورت الفاظ اور فقروں کی تخلیق پر اس حد تک ملکہ حاصل ہے کہ وہ ہر سطر میں قاری کو جکڑے والی تحریر لکھنے کے فن میں خوب لیاقت رکھتے دکھائی دیتے ہیں.
میں ان کی کتاب ’’یادیں‘‘ کا مطالعہ کر کے اسی نتیجے پر پہنچا ہوں…
فاضل مصنف نے اپنی یادوں کے اس مجموعے کو مروجہ آپ بیتی یا خودنوشت سے ہٹ کر تحریر کیا ہے. واقعات کو زمانی ترتیب سے پیش کرنے کے بجائے مختلف واقعات کو عنوانات دے کر تحریر کیا ہے. یہ وہی انداز ہے جو دیوان سنگھ مفتون نے ”ناقابل فراموش‘‘ میں اپنایا تھا.
”مردِ درویش‘‘ کے عنوان سے اپنے دادا جان کے بارے میں جن یادوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ خاصے کی چیز ہے، جس کی ابتداء نہایت دل آویز انداز میں کی گئی ہے. اپنے محترم دادا کی عبادت گزاری کا ذکر دل نشین انداز میں کیا ہے. اپنے دادا دادی کے گھر کی ایسی منظر کشی کی ہے کہ قاری کے سامنے ایک منظر سا ابھر جاتا ہے ساتھ ہی اپنے پوتے سے دادا دادی کی محبت کی چند ایک یادیں دل نشین پیرائے میں تحریر کی ہیں.
اسی کتاب کے ایک حصے جس کا عنوان ”یادوں کے دیپ‘‘ ہے، میں مصنف محترم جمیل ہاشمی نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کی یادداشتیں تحریر کرتے ہوئے اپنے ایک نائب قاصد کا ذکر اس انداز سے کیا ہے کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق کی خاکہ نگاری کا عکس چھلکنے لگتا ہے اور وہ ایک شاعر کے ساتھ ساتھ ایک عمدہ خاکہ نویس کے طور پر سامنے آتے ہیں.
اپنے ماتحت افراد کا ادب و احترام سے تذکرہ تحریر کرنا اور ان کے اوصاف نمایاں کرنا نہایت قابل تقلید اور قابل تحسین عمل ہے اس سے ان کی عالی ظرفی آشکارا ہوتی ہے. ان کی تحریر میں قوس قزح کی مانند رنگ بکھرے پڑے ہیں کہیں خوشی و سرشاری کے جذبات سے لبریز بیان ہے تو کہیں غم و اندوہ کی پر اثر یادیں لیکن ان کی نثر کا دامن ظرافت اور خوش طبعی سے بھی مزین ہے ایک افسر کے بارے میں تحریر کردہ واقعات قاری کو ہنسنے پر مجبور کر دیتے ہیں تحریر پڑھتے ہوئے یوں معلوم ہوتا ہے گویا کسی اعلی مزاح نگار نے الفاظ و تراکیب سے کشیدہ کاری کر رکھی ہو.
جمیل ہاشمی صاحب کی اس کتاب کا ایک اور وصف یہ کہ انہوں نے اپنی یادوں میں قارئین کو شریک کرتے ہوئے اعلٰی درجے کی منظر نگاری کا عکس پیش کیا ہے. گاغمن کی ماں کے زیر عنوان لکھے گئے حصے میں ان کا فن اپنے عروج پر دکھائی دیتا ہے ملاحظہ کیجیے:
”نانی اماں کا بڑا سا ہال نما کمرہ محلہ کی بڑی بوڑھی خواتین سے بھرا ہوا تھا دلچسپ باتوں اور مزاحیہ پرفارمنس سے محفل زعفران زار تھی موسم گرما کی تپتی دوپہر تھی، مگر نانی اماں کا کمرہ آمنے سامنے کھڑکیوں اور دروازوں کی وجہ سے ہوا کا خوب پاس نکاس کرتا تھا.‘‘
اتنی جزئیات کے ساتھ اس واقعے کو تحریر کرنے سے معلوم ہوتا کہ ان کا حافظہ بلا کا ہے. انہوں نے وہ انداز اپنایا ہے کہ سارا نقشہ آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے جیسے قاری خود مشاہدے میں مصروف ہو.
اپنی یادوں کی پٹاری سے وہ ایک سےایک شاہکار برآمد کیے چلے جاتے ہیں اور پڑھنے والے کو جکڑتے چلے جاتے ہیں کسی بھی لکھاری کا سب سے بڑا وصف یہی ہے کہ وہ قارئین کو اپنی تحریر کے سحر میں گرفتار کر لے ان کی دلچسپی کو نہ صرف آخر تک برقرار رکھے بلکہ بتدریج تجسس اور تحیر خیزی سے اسے نکھارنے میں کوئی کمی نہ چھوڑے مگر یہ سب افسانوی یعنی فکشن میں تو ممکن ہے خودنوشت یا حقائق تحریر کرتے ہوئے ان لوازمات کو بدرجہ احسن پورا کرنا بڑے جان جوکھوں کا کام ہے اور ہر کسی کے بس کی بات نہیں، بظاہر نہایت ہی عمومی واقعے کو ایک دل آویز انداز میں بھی تحریر کیا جاسکتا ہے اور ایک نہایت ہی تحیر خیز واقعے کو بھی عامیانہ اندار میں پیش کیا جاسکتا ہے. اس میں فرق پیدا کرنے والی چیز مناسب الفاظ کا کاملیت کے ساتھ چناو ہے جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا کیونکہ یہ ایک خداداد صلاحیت ہے جمیل ہاشمی کے ہاتھوں میں یہ صلاحیت بدرجہ غایت موجود ہے جس کے ثبوت ان کی تحریروں میں بکثرت موجود ہیں. جمیل ہاشمی نے اپنے شعری مجموعے ”پھر مسافر کو لوٹ آنا ہے‘‘ میں کہا ہے کہ:
غم چھپا کرکے دل کے مدفن میں
ان لبوں کو تو مسکرانا ہے
اب ان کی یادیں پڑھ کر معلوم ہوا کہ ان کی خوش مزاجی، خوش طبعی اور سخن سرائی پیچھے کتنے ہی غم انگیز لمحات ہیں ان کی مسکراہٹ کے پیچھے کیفیات کی کتنی بوقلمونی ہے، جن میں سے کچھ کا اظہار انہوں نے اپنی اس کتاب میں کیا ہے. دنیا دارلحوادث ہے، رنج و غم اور فرحت و شادمانی کے لمحات زیست انسانی کا ایک جزلاینفک ہے یہ نوع انسانی کی خوش طالعی ہے وقت سب سے بڑا مرہم ہے جس کی وجہ سے رفتہ رفتہ رنج و آلام کی کیفیات کو برداشت کرنے کا حوصلہ اور صبر پیدا ہوجاتا ہے آپ یہ کتاب پڑھتے ہوئے کئی مقامات پر اشک بار بھی ہونگے اور شاداں و فرحاں ہونے کی کیفیات سے آشنا بھی، نفسیات انسانی کا رنگ بھی دیکھیں گے اور رحم رحمانی کی جھلک بھی.
میں آخر میں اپنا ایک شعر جمیل ہاشمی کی نذر کرنے کی جسارت کروں گا کہ:
ضیاء رہے گی تو مٹ جائے گا اندھیرا بھی
شمع علم ہو تو جہل کا قصہ کیا ہے