گذشتہ دنوں پاکستان کی معروف شاعرہ اور براڈ کاسٹر محترمہ افروز رضوی کا مجموعہ غزل وصول ہوا. اس مجموعہ عزل میں 95 غزلیات شامل ہیں. کتاب کے فلیپ پر اردو کے مایہ ناز شاعر سحر انصاری اور امجد اسلام امجد کے تاثرات پڑھ کر ہی اس کی قد و قیمت کا اندازہ ہو جاتا ہے.
کتاب میں کہنہ مشق نامور شعراء کرام کی آرا شامل ہیں. ان آزمودہ کار اور جہاں دیدہ شعرا جناب محسن ملیح آبادی، جناب طاہر تونسوی، جناب اعتبار ساجد کی جانب سے شاعرہ کے فن پر اظہارِ خیال کے بعد اس ہیچمدان کے تاثرات سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہیں البتہ اتنی پر اثر، غنائیت سے لبریز اورحسن بیان کی حامل غزلیات پر اپنی رائے پیش نہ کرنا بھی کفرانِ نعمت ہوگا، اس لیے اپنی آراء پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں.
محترمہ افروز رضوی کا مجموعہ غزل ’’زمن افروز‘‘ پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ وہ حسن زبان و بیان پر قدرت رکھتی ہیں جس کی جھلک ان کی غزلوں میں جابجا دکھائی دیتی ہے:
ہاتھ جوڑ کر کہا عجز و نیاز سے
تم دل کو لے گئے ہو بڑی ساز باز سے
افروز رضوی روانی و تسلسل سے اپنی خیالات کی ترسیل کی ماہر دکھائی دیتی ہیں. ان کا مشاہدہ گہرا ہے وہ قیافہ شناسی کی ماہر بھی معلوم ہوتیں ہیں. یہ شعر ملاحظہ فرمائیں:
اس کے چہرے پر جب نظر رکھنا
خواہشیں دل کی تر بہ تر رکھنا
شاعرہ کے مجموعہ عزل میں صنعت گری بھی دکھائی دیتی ہے، ایک دو جھلکیاں دیکھیے:
× صنعت ترافق
پہلے لبوں سے بعد میں تیری زبان سے ہم
دیکھیں گے حرف حرف کو تیرے بیاں سے ہم
× طباق ایجابی
تنہائی کا اب خوف نہ فرقت کا کوئی غم
ہے اشک کا میلہ مرے اس دیدہ تر میں
محترمہ افروز رضوی کی ایک ایک عزل جذبات و خیالات کا پر اثر مرقع ہے. اس مجموعہ کلام مطالعے کے بعد ان کے پہلے مجموعہ ”سخن افروز‘‘ کے مطالعے سے محروم ہونے پر افسوس بھی ہوا کہ معیاری شاعری سے خود کو محروم رکھنا عصرِ حاضر میں ظلم کی انتہا ہے. یہ مجموعہ غزل اردو ادب میں قابل قدر اضافہ ہے جسے ’’نیاز مندان کراچی” نے شائع کیا ہے.